وادی تیراہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر اسلام اور انصار اسلام کے درمیان جھڑپوں میں شدت آنے کے بعد علاقے میں سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو کارروائی شروع کی تھی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی دور افتادہ وادی تیراہ میں شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان گزشتہ چار روز سے جاری جھڑپوں میں سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک لگ بھگ 110 عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جب کہ جھڑپوں میں 23 سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
وادی تیراہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر اسلام اور انصار اسلام کے درمیان جھڑپوں میں شدت آنے کے بعد اس علاقے میں سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو کارروائی شروع کی تھی۔
حالیہ مہینوں میں تحریک طالبان پاکستان اور اس کی اتحادی شدت پسند تنظیم لشکر اسلام کے جنگجو مقامی عسکریت پسند گروپ انصار اسلام کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں دونوں جانب سے جدید خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
سرکاری عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی فورسز نے طالبان اور اس کے حامی لشکر اسلام کے جنگجوؤں کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے اور وادی تیراہ کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے جس علاقے میں یہ لڑائی ہو رہی ہے وہاں تک میڈیا کی رسائی نہیں ہے اس لیے آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
وادی تیراہ میں لڑائی کے باعث مارچ کے وسط سے اب تک چالیس ہزار سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے ’فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ کے مطابق وادی تیراہ کی بیشتر آبادی نقل مکانی کر چکی ہے جن میں سے اکثریت نے عارضی قیام کے لیے پشاور کا رخ کیا۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کی سرحدیں دو دیگر قبائلی علاقوں کرم اور اورکزئی ایجنسی سے بھی ملتی ہیں اور تقریباً 100 کلومیٹر پر پھیلی اس وادی کا بیشتر حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے جہاں کالعدم شدت پسند تنظیموں نے اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔
تین قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع یہ وادی عسکری اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ دیگر قبائلی علاقوں میں تعینات اہلکاروں کو رسد کی ترسیل کے لیے جو راستہ استعمال کیا جاتا ہے وہ تیراہ ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔
وادی تیراہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر اسلام اور انصار اسلام کے درمیان جھڑپوں میں شدت آنے کے بعد اس علاقے میں سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو کارروائی شروع کی تھی۔
حالیہ مہینوں میں تحریک طالبان پاکستان اور اس کی اتحادی شدت پسند تنظیم لشکر اسلام کے جنگجو مقامی عسکریت پسند گروپ انصار اسلام کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ مقامی قبائلیوں کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں دونوں جانب سے جدید خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
سرکاری عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی فورسز نے طالبان اور اس کے حامی لشکر اسلام کے جنگجوؤں کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے اور وادی تیراہ کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے جس علاقے میں یہ لڑائی ہو رہی ہے وہاں تک میڈیا کی رسائی نہیں ہے اس لیے آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
وادی تیراہ میں لڑائی کے باعث مارچ کے وسط سے اب تک چالیس ہزار سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے ادارے ’فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ کے مطابق وادی تیراہ کی بیشتر آبادی نقل مکانی کر چکی ہے جن میں سے اکثریت نے عارضی قیام کے لیے پشاور کا رخ کیا۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کی سرحدیں دو دیگر قبائلی علاقوں کرم اور اورکزئی ایجنسی سے بھی ملتی ہیں اور تقریباً 100 کلومیٹر پر پھیلی اس وادی کا بیشتر حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے جہاں کالعدم شدت پسند تنظیموں نے اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔
تین قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع یہ وادی عسکری اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ دیگر قبائلی علاقوں میں تعینات اہلکاروں کو رسد کی ترسیل کے لیے جو راستہ استعمال کیا جاتا ہے وہ تیراہ ہی سے ہو کر گزرتا ہے۔