پاکستان سے زبانی جمع خرچ نہیں عملی اقدامات کی توقع

پاکستان سے زبانی جمع خرچ نہیں عملی اقدامات کی توقع

سینیٹر جان کیری نے کہا کہ بات چیت میں پاکستانی رہنماؤں نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مزید راہیں تلاش کرنے کے عزم کو دہرایا اور دونوں ملک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے اور اہم اہداف کے خلاف مشترکہ کارروائیوں میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔

امریکی سینیٹر جان کیری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ’’زبانی جمع خرچ نہیں عملی اقدامات‘‘ مستقبل میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی سمت کا تعین کریں گے۔

پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے تفصیلی ملاقاتوں کے بعد پیر کی سہ پہر اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکی سینیٹ کی بارسوخ کمیٹی برائے خارجہ اُمور کے چیئرمین نے متنبہ کیا کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن اورامریکہ کے دشمنوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی اُن کے ملک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں ’’دونوں ملکوں کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے‘‘ اور حتمی فیصلہ پاکستانی عوام نے کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک کو قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور کے مطابق ایک روادار جمہوریت بنانا چاہتے ہیں یا انتہاپسندوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ۔ ’’دوسرا راستہ پاکستان، امریکہ اور خطے کے لیے ایک انتہائی خطرناک راستہ ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ بات چیت میں پاکستانی رہنماؤں نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مزید راہیں تلاش کرنے کے عزم کو دہرایا اور دونوں ملک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے اور اہم اہداف کے خلاف مشترکہ کارروائیوں میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔

تاہم جان کیری کے بقول یہ ابتدائی اقدامات ہیں اور رواں ماہ دو اعلیٰ امریکی عہدے دار ان پر مزید پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اپنی حالیہ ملاقاتوں کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ ان کا مقصد دوطرفہ روابط کو درست ڈگر پر ڈالنا اور پاکستان پر یہ واضح کرنا تھا کہ دونوں ملک تعلقات میں پیش رفت کر سکتے ہیں۔

پاکستان سے زبانی جمع خرچ نہیں عملی اقدامات کی توقع

انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستانی اور امریکی عوام اور افواج کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ ان حقائق کے باوجود اگر دونوں ملکوں میں رابطے منقطع ہوتے ہیں تو یہ پیش رفت عقل و فہم سے باہر ہوگی۔

جان کیری نے پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بنے والے تقریباً 35 ہزار شہریوں اور پانچ ہزار سکیورٹی اہلکاروں کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ گذشتہ نو سالوں میں پاکستان نے سنگین مالی نقصانات کا سامنا بھی کیا ہے۔

امریکہ کے موقف کو دہراتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ تاحال ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا علم تھا۔

ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ

ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما کے خلاف دو مئی کو کی گئی امریکی اسپیشل فورسز کی یک طرفہ کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ اس آپریشن کو خفیہ رکھنے کی اصل وجہ اعتماد کا فقدان نہیں بلکہ امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور بن لادن کی گرفتاری یا ہلاکت کو یقینی بنانا تھا۔

ماضی کی مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ 2001ء میں اسامہ بن لادن اور اُس کے سینکڑوں جنگجوؤں کو افغانستان کے تورہ بورہ کے پہاڑوں میں گھیر لیا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کے خلاف کارروائی میں امریکی اہلکار حصہ نہیں لیں گے اور یہ لوگ بچ کر پاکستان فرار ہو گئے۔

جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت میں محض چند عہدے داروں کو ایبٹ آباد آپریشن کا علم تھااور خود اُنھیں اس کی اطلاع وائٹ ہاؤس سے کی گئی ٹیلی فون کال سے ملی۔ البتہ اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ بن لادن کا کھوج لگانے میں پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی خفیہ معلومات نے اہم کردار ادا کیا۔

تباہ شدہ امریکی ہیلی کاپٹر کا ملبہ

صحافیوں کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی سینیٹر نے بتایا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے دوران حادثے کا شکار ہونے والے انتہائی جدید اور خفیہ ٹیکنالوجی سے لیس ہیلی کاپٹر کے پرزے جو پاکستانی سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں، منگل کو امریکی حکام کے حوالے کر دیے جائیں گے۔

سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کے بعد امریکی کانگریس کے کئی اراکین پاکستان کو فراہم کی جانے والی اعانت کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن واشنگٹن پاکستان اور اس کے عوام کی مدد کے عزم پر قائم ہے۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین کے بظاہر متوازن بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب پاکستان میں سیاسی و عسکری قیادت نے ایبٹ آباد آپریشن کو ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی پر زور مذمت کی ہے۔

پارلیمان

گذشتہ ہفتے پاکستانی پارلیمان نے فوجی قیادت کی طرف سے اس واقعے پر تفصیلی بریفنگ کے بعد ایک متفقہ قرار دار میں کہا تھا کہ آئندہ اس طرز کی کارروائی کی صورت میں پاکستان ناصرف دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگا بلکہ افغانستان میں جاری جنگ کے لیے انتہائی اہم قرار دی جانے والی رسد کی پاکستان کے راستے ترسیل کو بھی معطل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی فوج نے ملک میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کو انتہائی محدود سطح پر لانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔