موسموں کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے کسانوں کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا
مظفر آباد —
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مکئی کی فصل نہ ہونے سے کسانوں کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جب کہ مون سون میں کم بارشوں کی وجہ سے سبزیوں کی پیداوار اور جانوروں کا چارہ متاثر ہونے سے یہ مشکلات مذید بڑھ گئی ہیں۔
کشمیر کے محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات کے اعدادوشمار کے مطابق 88 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جن کا گزر بسر زراعت اور مال مویشی پالنے پر ہے۔ بالائی علاقوں میں سال بھر کی واحد فصل مکئی ہے جس سے خوراک کے علاوہ مویشیوں کے لیے موسم سرما کا چارہ حاصل کیا جاتا ہے۔
سرحدی قصبے چکوٹھی کے پچاس سالہ کسان نصیر احمد ان کسانوں میں سے ایک ہیں جو فصل نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وہ روزانہ اپنے کھیت میں آکر موسمی شدت کے شکار مکئی کے چھوٹے چھوٹے پودوں کو دیکھ کر واپس گھر چلے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں’’ مئی میں بوئی جانے والی فصل ستمبر کے مہینے میں پک کر تیار ہوجاتی ہے اس دفعہ ستمبر بھی ختم ہوچکا ہے اور مکئی کا پودا اتنا ہے جتنا جون کے مہینے میں ہونا چاہیئے تھا۔‘‘
نصیر احمد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کسانوں کو موسمی شدت کا مقابلہ کرنے کے تربیت و رہنمائی فراہم کی جائے۔
جمروز خان بھی ایک کسان ہیں جو اپنے چھ جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے قصاب سے بات کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ مکئی کی فصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لیے خوراک کا بندوبست کرنا مشکل ہے تو ان جانوروں کو کہاں سے کھلائیں گے۔ کیونکہ مکئی کی فصل سے انسانی خوراک کے علاوہ جانوروں کے لیے چارہ حاصل ہوتا تھا جو اس سال نہیں ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اور بھی بہت سے کسان اور مویشی پالنے والے مکئی کے علاوہ چارہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے جانوروں کو ’’اونے پونے داموں‘‘ بیچ رہے ہیں۔
ماہرین زراعت کے مطابق عالمی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث موسموں کے اوقات تبدیل ہو رہے ہیں۔ جس کے لیے فصلوں کے نظام الاوقات میں تبدیلی لانا ہو گی اور درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے موسم کے ساتھ میل کھانے والی فصلیں کاشت کرنا ہوں گی۔
محکمہ زراعت کے ماہر ارضیات ڈاکٹر ریاض نعیم نے وائس آف ا مریکہ کو بتایا کہ موسموں کی شدت کا مقابلہ کر نے کے لیے کسانوں کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور خشک سالی اور بے وقت بارشوں سے فصلوں کو بچانے کی حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی تاکہ موسم سے بہتر سے بہتر استفادہ کیا جاسکے۔
کشمیر کے محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات کے اعدادوشمار کے مطابق 88 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جن کا گزر بسر زراعت اور مال مویشی پالنے پر ہے۔ بالائی علاقوں میں سال بھر کی واحد فصل مکئی ہے جس سے خوراک کے علاوہ مویشیوں کے لیے موسم سرما کا چارہ حاصل کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں’’ مئی میں بوئی جانے والی فصل ستمبر کے مہینے میں پک کر تیار ہوجاتی ہے اس دفعہ ستمبر بھی ختم ہوچکا ہے اور مکئی کا پودا اتنا ہے جتنا جون کے مہینے میں ہونا چاہیئے تھا۔‘‘
نصیر احمد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کسانوں کو موسمی شدت کا مقابلہ کرنے کے تربیت و رہنمائی فراہم کی جائے۔
جمروز خان بھی ایک کسان ہیں جو اپنے چھ جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے قصاب سے بات کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ مکئی کی فصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لیے خوراک کا بندوبست کرنا مشکل ہے تو ان جانوروں کو کہاں سے کھلائیں گے۔ کیونکہ مکئی کی فصل سے انسانی خوراک کے علاوہ جانوروں کے لیے چارہ حاصل ہوتا تھا جو اس سال نہیں ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اور بھی بہت سے کسان اور مویشی پالنے والے مکئی کے علاوہ چارہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے جانوروں کو ’’اونے پونے داموں‘‘ بیچ رہے ہیں۔
ماہرین زراعت کے مطابق عالمی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث موسموں کے اوقات تبدیل ہو رہے ہیں۔ جس کے لیے فصلوں کے نظام الاوقات میں تبدیلی لانا ہو گی اور درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے موسم کے ساتھ میل کھانے والی فصلیں کاشت کرنا ہوں گی۔
محکمہ زراعت کے ماہر ارضیات ڈاکٹر ریاض نعیم نے وائس آف ا مریکہ کو بتایا کہ موسموں کی شدت کا مقابلہ کر نے کے لیے کسانوں کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور خشک سالی اور بے وقت بارشوں سے فصلوں کو بچانے کی حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی تاکہ موسم سے بہتر سے بہتر استفادہ کیا جاسکے۔