پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس استعمال کی۔
اسلام آباد —
گستاخانہ فلم کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہے اور پیر کو کم از کم ایک شخص ہلاک جب کہ درجنوں کے گرفتاریوں کی اطلاعات ملی ہیں۔
مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے گستاخانہ فلم کے خلاف دوسرے روز بھی کراچی میں امریکی قونصل خانے کی طرف جانے کی کوشش کی مگر پولیس نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔
کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس کشمکش کے دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس استعمال کی جس سے اطلاعات کے مطابق متعدد افراد زخمی ہوئے جب کہ پولیس نے 50 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔
ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف حصوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اپر دیر میں مشتعل مظاہرین نے مقامی پریس کلب اور ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار کے دفتر کو نذر آتش کر دیا۔
پانچ سو سے زائد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی جس سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
پشاور میں بھی درجنوں مظاہرین نے امریکی قونصل خانے تک پہنچنے کی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنا دیا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ گستاخانہ فلم ساز کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم انھوں نے اس کے خلاف پرتشدد مظاہروں سے گریز کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
پاکستانی حکومت نے یو ٹیوب پر اس فلم کے لنک کو بند کر رکھا ہے۔ ٹیلی کام اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کا کہنا ہے کہ توہین آمیز فلم تک رسائی کے ساڑھے سات سو سے زائد لنکس کو منجمد کر دیا گیا اور پاکستان میں صارفین کی کڑی نگرانی بھی کی جا رہی ہے تاکہ متنازع فلم کی کسی قسم کی تشہیر نا ہو سکے۔
اُدھر افغانستان میں بھی اسلام مخالف اس فلم کے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور پیر کو تین سے چار ہزار مظاہرین نے کابل میں احتجاج کیا۔ حکام کے مطابق مشتعل افراد نے پولیس کی متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
امریکی حکام بشمول وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اس فلم سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ قابل نفرت ہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بننے والی اس متنازع فلم کے مناظر گزشتہ ہفتے ’یو ٹیوب‘ پر جاری ہونے کے بعد سے مسلمان ملکوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جِن میں امریکی اور یورپی ملکوں کے سفارت خانوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے گستاخانہ فلم کے خلاف دوسرے روز بھی کراچی میں امریکی قونصل خانے کی طرف جانے کی کوشش کی مگر پولیس نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔
کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس کشمکش کے دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس استعمال کی جس سے اطلاعات کے مطابق متعدد افراد زخمی ہوئے جب کہ پولیس نے 50 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔
ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف حصوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اپر دیر میں مشتعل مظاہرین نے مقامی پریس کلب اور ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار کے دفتر کو نذر آتش کر دیا۔
پانچ سو سے زائد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی جس سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
پشاور میں بھی درجنوں مظاہرین نے امریکی قونصل خانے تک پہنچنے کی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنا دیا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ گستاخانہ فلم ساز کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم انھوں نے اس کے خلاف پرتشدد مظاہروں سے گریز کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
پاکستانی حکومت نے یو ٹیوب پر اس فلم کے لنک کو بند کر رکھا ہے۔ ٹیلی کام اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کا کہنا ہے کہ توہین آمیز فلم تک رسائی کے ساڑھے سات سو سے زائد لنکس کو منجمد کر دیا گیا اور پاکستان میں صارفین کی کڑی نگرانی بھی کی جا رہی ہے تاکہ متنازع فلم کی کسی قسم کی تشہیر نا ہو سکے۔
اُدھر افغانستان میں بھی اسلام مخالف اس فلم کے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور پیر کو تین سے چار ہزار مظاہرین نے کابل میں احتجاج کیا۔ حکام کے مطابق مشتعل افراد نے پولیس کی متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
امریکی حکام بشمول وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اس فلم سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ قابل نفرت ہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بننے والی اس متنازع فلم کے مناظر گزشتہ ہفتے ’یو ٹیوب‘ پر جاری ہونے کے بعد سے مسلمان ملکوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جِن میں امریکی اور یورپی ملکوں کے سفارت خانوں پر حملے کیے گئے ہیں۔