چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں توہین عدالت کے قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پارلیمان کی طرف سے حال ہی میں متعارف کرائے گئے توہین عدالت سے متعلق متنازع قانون کو عدلیہ کی آزادی پر قدغن قرار دے کر منسوخ کر دیا ہے۔
جولائی کے وسط میں پارلیمان سے عجلت میں منظور ہونے والے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف 27 آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جن کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ 23 جولائی سے کر رہا تھا اور جمعہ کو اپنے مختصر فیصلے میں عدالت نے اس قانون کو عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم اور پرانے قانون کو بحال کر دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کی بعض شقوں کے ذریعے عدلیہ کے اخیتارات کو محدود کرنے اور ججوں کے وقار کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور عوامی عہدوں پر فائز کسی شخص کو توہین عدالت سے استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا اس لیے پرانے قانون میں کی گئی ترامیم پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر احمد اویس عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کہتے ہیں کہ توہین عدالت کے قانون میں عدالت کی آزادی کو کم کرنے اور عدالتی عمل کو طول دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
’’سپریم کورٹ کی حیثیت کو عوام کی نظروں میں کمزور کرنا تھا کیوں کہ جب کوئی عدالت اپنے فیصلے کو منوا نا سکے، عدالت کا مذاق اڑیا جائے اور عدالت بے بس ہو تو ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے ... اس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا۔‘‘
پیپلز پارٹی کے رہنماء اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی اُمور فواد چودھری کا کہنا ہے کہ عدالت نے اس فیصلے کے ذریعے ’’پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کو سلب کیا ہے‘‘۔
حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے جولائی کے وسط میں توہین عدالت کا نیا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت وزیرِ اعظم اور وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ پر سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں کے سلسلے میں اُن پر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
وفاق کے وکیل عبد الشکور پراچہ نے اس قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ اعتراف کیا تھا کہ نیا قانون متعارف کرانے کی ایک وجہ راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی سے تحفظ فراہم کرنا ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف بیروں ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 8 اگست تک کی حتمی مہلت دے رکھی ہے اور ایسا نا کرنے پر انھیں توہین عدالت کے جرم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد نا کرنے پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی تھی، جو اُن کی پارلیمانی رکنیت سے نا اہلیت کا باعث بنی۔
جولائی کے وسط میں پارلیمان سے عجلت میں منظور ہونے والے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف 27 آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جن کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ 23 جولائی سے کر رہا تھا اور جمعہ کو اپنے مختصر فیصلے میں عدالت نے اس قانون کو عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم اور پرانے قانون کو بحال کر دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کی بعض شقوں کے ذریعے عدلیہ کے اخیتارات کو محدود کرنے اور ججوں کے وقار کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور عوامی عہدوں پر فائز کسی شخص کو توہین عدالت سے استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا اس لیے پرانے قانون میں کی گئی ترامیم پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر احمد اویس عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کہتے ہیں کہ توہین عدالت کے قانون میں عدالت کی آزادی کو کم کرنے اور عدالتی عمل کو طول دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
’’سپریم کورٹ کی حیثیت کو عوام کی نظروں میں کمزور کرنا تھا کیوں کہ جب کوئی عدالت اپنے فیصلے کو منوا نا سکے، عدالت کا مذاق اڑیا جائے اور عدالت بے بس ہو تو ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے ... اس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا۔‘‘
پیپلز پارٹی کے رہنماء اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی اُمور فواد چودھری کا کہنا ہے کہ عدالت نے اس فیصلے کے ذریعے ’’پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کو سلب کیا ہے‘‘۔
حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے جولائی کے وسط میں توہین عدالت کا نیا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت وزیرِ اعظم اور وفاقی و صوبائی وزرا اور وزرائے اعلیٰ پر سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں کے سلسلے میں اُن پر توہین عدالت کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
وفاق کے وکیل عبد الشکور پراچہ نے اس قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ اعتراف کیا تھا کہ نیا قانون متعارف کرانے کی ایک وجہ راجہ پرویز اشرف کو توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی سے تحفظ فراہم کرنا ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف بیروں ملک مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 8 اگست تک کی حتمی مہلت دے رکھی ہے اور ایسا نا کرنے پر انھیں توہین عدالت کے جرم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس سے قبل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد نا کرنے پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی تھی، جو اُن کی پارلیمانی رکنیت سے نا اہلیت کا باعث بنی۔