پاکستان کی سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یا ’این آر او‘ سے متعلق حکومت کی طرف سے دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
عدالت عظمٰی نے 16 دسمبر 2009ء کو ایک متفقہ فیصلے میں این آر او کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا اور اس قانون کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت 8,000 سے زائد دیگر افراد کے خلاف ختم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
لیکن حکومت نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی جس کا فیصلہ جمعہ کو سنایا گیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نظر ثانی کی درخواست میں حکومت اپنا موقف ثابت نہیں کر سکی اس لیے 16 دسمبر کے فیصلے پر بلا تاخیر اور مِن وعن عمل درآمد کیا جائے۔
عدالت عظمٰی میں وفاق کی طرف سے دائر کی جانے والی نظرثانی کی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ این آر او کو کالعدم قرار دینے کے لیے ابتدائی طور پر دائر درخواستوں میں سوئس کیسز کو دوبارہ کھولنے کی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود ان مقدمات کو دوبارہ شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
اس مقدمے کے ایک فریق مبشر حسن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالتی کارروائی کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ این آر او کو جواز بنا کر 2008ء میں سوئس حکام کو لکھے گئے خط کو واپس لیا جائے کیوں کہ اس صدارتی حکم نامے کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔
اُس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم کی طرف سے لکھے گئے خط میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ریاست اپنے تمام دعوؤں سے دستبردار ہو رہی ہے، جس کے بعد حکمران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات ختم ہو گئے تھے۔
معروف قانون دان اعتراز احسن نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہے۔ ’’آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو عدالتی کارروائی سے استثنیٰ، ہر فوجی داری عدالتی مقدمے میں کارروائی کے تسلسل یا اس کے آغاز سے صدر مستثنیٰ ہے ۔‘‘
وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے عدالت عظمٰی کے فیصلے پر فوری طور پر کوئی حتمی تبصرہ کرنے سے گزیر کرتے ہوئے کہا کہ ’’قیادت اور پارٹی کی سطح پر مشاورت ہو گی۔ اس فیصلے کو جانچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ہماری پارٹی اور حکومت کا (اس پر) موقف کیا ہوگا۔‘‘