حکمران پارٹی نے سزائے موت کی عمر قید میں تبدیلی کے لیے مجوزہ قانون سازی پر صوبائی حکومتوں کی رائے دریافت کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم حکمران اتحاد نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے مجوزہ قانون سازی پر صوبائی حکومتوں کی رائے دریافت کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔
ملک کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے 8,000 سے زائد لوگ سزاؤں پرعمل درآمد کے منتظر ہیں، مگر 2008ء کے بعد سے اب تک ان میں سے کسی شخص کوبھی پھانسی پر نہیں چڑھایا گیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے ماسوائے دہشت گردی اور ریاست مخالف جرائم میں ملوث مجرمان کے تمام قیدیوں کی پھانسی پر عملدرآمد معطل کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
بظاہر اس عارضی اقدام کو مستقل شکل دینے کے لیے وفاقی حکومت کی تجویز پر پیپلز پارٹی کے زیر انتظام صوبہ سندھ نے اس ضمن میں پہل کرتے ہوئے سزائے موت کے خاتمے کی حمایت کی ہے۔
صوبائی وزیرِ قانون اور جیل خانہ جات محمد ایاز سومرو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی نظر میں 25 برس قید کی تجویز کردہ سزا پھانسی سے بھی زیادہ ہے۔
’’اگر وہ (مجرم) 25 سال کی سزا کاٹے تو یہ زندگی کا بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے ... یہ کم بات نہیں اس کی آدھی عمر ضائع جائے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے جیل اصلاحات کرکے قید خانوں میں بند افراد کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ رہائی کے بعد یہ جرم کا راستہ ترک کرکے معاشرے کا فعال شہری بن سکیں۔
بعض قانونی ماہرین ملک میں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے پر تحفظات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اُن کے خیال میں پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں سزائے موت کا خاتمہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث عناصر کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
لیکن انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتیں۔
’’سزائے موت کا جرائم کی روک تھام سے کوئی تعلق نہیں ہے ... ہم لوگوں کا خیال ہے کہ سزا کو یقینی بنانا سخت سزا سے زیادہ اہم ہے۔ جو جرم کر رہا ہے یا کرنے جا رہا ہے اس کو اگر یقین ہو کہ اسے سزا ملے گی تو وہ شائد جرم نا کرے۔‘‘
زہرہ یوسف نے اعتراف کیا کہ اس وقت پاکستان میں اکثریتی رائے عامہ سزائے موت کے خاتمے کے حق میں نہیں، مگر اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتوں کو دیگر مہذب ممالک کی طرح اس سمت میں پیش رفت کرنی چاہیئے۔
’’جس قسم کی یہاں تحقیقات ہوتی ہیں، ان میں خاصہ امکان ہوتا ہے کہ معصوم افراد کو بھی سزائے موت سنا دی جائے۔‘‘
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ سزائے موت کے قانون کا اطلاق جاری رہا تو پاکستان پر بین الاقوامی اقتصادی دباؤ بھی برقرار رہے گا۔
اُن کا اشارہ یورپی یونین میں شامل ملکوں کی طرف تھا جنھوں نے 2014ء کے آغاز سے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی رعایتوں کی فراہمی کو سزائے موت کے خاتمے سے مشروط کر رکھا ہے۔
ملک کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے 8,000 سے زائد لوگ سزاؤں پرعمل درآمد کے منتظر ہیں، مگر 2008ء کے بعد سے اب تک ان میں سے کسی شخص کوبھی پھانسی پر نہیں چڑھایا گیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے ماسوائے دہشت گردی اور ریاست مخالف جرائم میں ملوث مجرمان کے تمام قیدیوں کی پھانسی پر عملدرآمد معطل کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
بظاہر اس عارضی اقدام کو مستقل شکل دینے کے لیے وفاقی حکومت کی تجویز پر پیپلز پارٹی کے زیر انتظام صوبہ سندھ نے اس ضمن میں پہل کرتے ہوئے سزائے موت کے خاتمے کی حمایت کی ہے۔
پچیس سال قید کم سزا نہیں، میرے خیال میں یہ پھانسی سے بھی زیادہ ہے۔محمد ایاز سومرو
صوبائی وزیرِ قانون اور جیل خانہ جات محمد ایاز سومرو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی نظر میں 25 برس قید کی تجویز کردہ سزا پھانسی سے بھی زیادہ ہے۔
’’اگر وہ (مجرم) 25 سال کی سزا کاٹے تو یہ زندگی کا بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے ... یہ کم بات نہیں اس کی آدھی عمر ضائع جائے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے جیل اصلاحات کرکے قید خانوں میں بند افراد کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ رہائی کے بعد یہ جرم کا راستہ ترک کرکے معاشرے کا فعال شہری بن سکیں۔
بعض قانونی ماہرین ملک میں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے پر تحفظات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ اُن کے خیال میں پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں سزائے موت کا خاتمہ دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث عناصر کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
لیکن انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتیں۔
’’سزائے موت کا جرائم کی روک تھام سے کوئی تعلق نہیں ہے ... ہم لوگوں کا خیال ہے کہ سزا کو یقینی بنانا سخت سزا سے زیادہ اہم ہے۔ جو جرم کر رہا ہے یا کرنے جا رہا ہے اس کو اگر یقین ہو کہ اسے سزا ملے گی تو وہ شائد جرم نا کرے۔‘‘
سزائے موت کا جرائم کی روک تھام سے کوئی تعلق نہیں ہےزہرہ یوسف
زہرہ یوسف نے اعتراف کیا کہ اس وقت پاکستان میں اکثریتی رائے عامہ سزائے موت کے خاتمے کے حق میں نہیں، مگر اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتوں کو دیگر مہذب ممالک کی طرح اس سمت میں پیش رفت کرنی چاہیئے۔
’’جس قسم کی یہاں تحقیقات ہوتی ہیں، ان میں خاصہ امکان ہوتا ہے کہ معصوم افراد کو بھی سزائے موت سنا دی جائے۔‘‘
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ سزائے موت کے قانون کا اطلاق جاری رہا تو پاکستان پر بین الاقوامی اقتصادی دباؤ بھی برقرار رہے گا۔
اُن کا اشارہ یورپی یونین میں شامل ملکوں کی طرف تھا جنھوں نے 2014ء کے آغاز سے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی رعایتوں کی فراہمی کو سزائے موت کے خاتمے سے مشروط کر رکھا ہے۔