وکلاء تنظیم کے بائیکاٹ پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منسوخ

چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیٹی کا اجلاس (فائل فوٹو)

کمیشن کے سابق ممبر اور معروف قانون دان خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ کمیشن کی ہیئت میں کچھ تبدیلی سے اس پر ہونے والی تنقید کو کم کیا جا سکتا ہے۔
وکلاء کی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندے اور اٹارنی جنرل کے شرکت سے انکار کے بعد ججوں کی تقرری سے متعلق عدالتی کمیشن کے ہفتے کو ہونے والے اجلاس کو منسوخ کردیا گیا۔

پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین برہان معظم ملک نے کہا کہ کمیشن کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کونسل کے 22 ممبران نے متفقہ طور پر کیا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمیشن میں وکلاء کی نمائندگی ’’برائے نام‘‘ ہے اور ان کی جانب سے کسی تجویز یا سفارشات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

’’ہم کہتے ہیں کہ مشاورتی عمل میں ہماری رائے کو بھی جگہ دیں۔ جج کی تقرری میں ہماری رائے لیں کیونکہ وکلاء کو بہتر معلوم ہوتا ہے اپنے ساتھیوں کے بارے میں۔ بعد میں پھر اس کی آزادانہ تحقیقات بھی کروالیں۔ مگر یہ ہو کہ میں ایک بندے کی تقرری چاہتا ہوں اور وہ بغیر کسی مسئلہ کے ہوجائے۔ تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

برہان معظم نے کمیشن کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے اجلاس میں شرکت کرنے والے کونسل کے ممبر پر اجلاس کی کارروائی سے اپنی قیادت کو آگاہ کرنے کی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔

’’بار کونسل کا ممبر بار کا نمائندہ ہوتا ہے تو کمیشن میں بات بار کونسل کی پہنچنی چاہیے ناکہ اس شخص کی اور بار کونسل کو اس بات سے مطلع کیا جائے کہ آپ کی بات میں وزن تھا یا نہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، چار سینیئر ججوں اور سابق چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے جج کے علاوہ عدالتی کمیشن کے ممبران میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے جمعہ کو سپریم کورٹ رجسٹرار کو ایک خط کے ذریعے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وکلاء کے نمائندے کی عدم شرکت سے کمیشن نامکمل ہے۔

ججوں کی تقریری کے آئینی طریقہ کار کے مطابق کمیشن کے تجویز کردہ ناموں کی منظوری مخصوص پارلیمانی کمیٹی کرتی ہے اور کسی نام پر اعتراض کی صورت میں پارلیمانی کمیٹی عدالتی کمیشن کو تحریری طور پر وجوہات بتا کر کمیشن کو واپس بھیجنے کی مجاز ہے۔

کمیشن کے سابق ممبر اور معروف قانون دان خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ کمیشن کی ہیئت میں کچھ تبدیلی سے اس پر ہونے والی تنقید کو کم کیا جا سکتا ہے۔

’’پارلیمانی کمیٹی جب فیصلہ کرتی ہے تو سپریم کورٹ اسے کہتی ہے کہ آپ کے پاس اس کا حق نہیں لہذا اس عمل کا ایک اہم حصہ اب اس عمل سے متعلق غیر سنجیدہ ہوکر رہ گیا ہے۔ جو لوگ سپریم کورٹ میں ہیں وہی جوڈیشل کمیشن میں بھی ہیں۔۔۔آج بھی یہ تاثر عام ہے کہ (سپریم کورٹ کے) چیف جسٹس فیصلہ کرتے ہیں کہ کس نے جج بننا ہے۔‘‘

کمیشن کے سیکرٹری اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار فقیر حیسن سے ان کا موقف حاصل کرنے کے لیے متعدد بار کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔

سپریم کورٹ میں صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بھی ایک ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کے آئینی اختیارات کے بارے میں پوچھا ہے۔ تاہم وکلاء کے دلائل سننے کے بعد عدالت اعظمیٰ نے اپنا جواب محفوظ کر رکھا ہے۔