صحافی سلیم شہزاد کی ہلاکت کا معمہ تاحال حل نہ ہوسکا

سلیم شہزاد (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بننے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سلیم شہزاد کی تحریروں سے خفیہ ایجنسیوں اور شدت پسندوں کی ناراضگی ممکن تھی اور ان میں سے کوئی بھی اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔
پاکستانی صحافی سلیم شہزاد کے قتل کو دو سال گزر گئے ہیں مگر ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس واقعے کی بھرپور رپورٹنگ اور عدالتی کمیشن کے قیام کے باوجود اب تک یہ معمہ حل نا ہوا اور سلیم شہزاد کے قاتلوں کی نشاندہی تک نہیں ہوسکی۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق ناکافی شواہد کی وجہ سے اس واقعے کی تحقیقات ان کے بقول عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے۔

سلیم شہزاد کی موت کی دوسری برسی کے موقع پر وائس آف امریکہ سے جمعرات کو گفتگو کرتے ہوئے ان کی بیوہ انیتا سلیم کا کہنا تھا کہ عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد انہیں سیلم شہزاد کے قاتلوں کی گرفتاری یا سزاء کے بارے میں امید تک نہیں رہی۔

’’میں اپنا شوہر گنوا بیٹھی ہوں اور پھر میرے ساتھ تین چھوٹے بچے ہیں تو میں اتنی چیزوں میں پڑنا نہیں چاہتی کہ کہاں میں عدالتوں کے چکر لگاتی پھروں۔ پھر میں کہتی ہوں کہ اتنا کمیشن بیٹھا، اتنا سب کچھ ہوا اس وقت کچھ نہیں ہوسکا تو اب میں ان لوگوں سے کیا امید کروں۔‘‘

سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بننے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سلیم شہزاد کی تحریروں سے خفیہ ایجنسیوں اور شدت پسندوں کی ناراضگی ممکن تھی اور ان میں سے کوئی بھی اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سلیم شہزاد کے قتل سے متعلق فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر شکوک کا اظہار کیا تھا مگر ادارے کی جانب سے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔

ہانگ کانگ کے ایک آن لائن اخبار ایشیا ٹائمز کے پاکستان میں بیورو چیف سلیم شہزاد کو 29 مئی 2011 میں اسلام آباد سے نا معلوم افراد نے اغواء کیا اور اگلے ہی روز ان کی لاش پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں ایک نہر سے ملی تھی۔

سنیئر صحافی محمد مالک کہتے ہیں کہ ملک میں صحافیوں کے قتل کے واقعات تحقیقات کے عمل سے کبھی آگے ہی نہیں بڑھے جس کی وجہ ذرائع ابلاغ کے ادارے کی اس بارے میں عدم دلچسپی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی یا ریاستی ادارے سے ٹکراؤ کے ڈر سے مالکان یہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

’’جب یہ پیغام نہیں جائے گا کہ اس ملک میں اگر آپ کسی کو ماریں تو آپ خود بھی پھانسی لگ سکتے ہیں تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اصل بات ہے صحافیوں کو ان کے اپنے اداروں کی حمایت حاصل نہیں خاص طور پر ایسے معاملات جہاں خفیہ ادارے یا گروہ ملوث ہوں۔ خبر کی تشہیر میں تو سب شامل ہوتے ہیں مگر اس کے نتائج صحافیوں کو اکیلے برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ تو ہم بہت مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔‘‘

محمد مالک کا کہنا تھا کہ صحافیوں اور ان سے متعلق دیگر تنظیموں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔

’’مالکان یا ان کے بچے یا بھائی ایڈیٹرز ہیں تو وہ ایڈیٹوریل باڈی سی پی این ای بھی مالکان کی تنظیم بن گئی۔ براڈکاسٹر ایسویشن میں بھی مالکان تو پھر بڑے فورم تو ہائی جیک ہوگئے اور پی ایف یو جے ویج بورڈ کے معاملے ہی سے نہیں نکلی۔ ہمیں اپنی یونین پر کام کرنا ہوگا تاکہ انہیں معنی خیز بنا سکیں۔‘‘

صحافیوں کے لئے پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں یہاں کم از کم 80 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی نمائندہ تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق ان واقعات میں ملوث کسی شخص کو اب تک سزاء نہیں ہوئی ہے۔