دنیا کے مختلف ملکوں کی طرح منگل کو پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا بین الاقوامی دن منایا گیا جس میں صحافیوں کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنے کا مطالبہ سامنے آیا۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور صحافیوں کے تحفظ و حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیمیں اپنی حالیہ رپورٹس میں یہ کہہ چکی ہیں کہ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی آزادی صحافت کو مختلف طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔
ان خطرات میں جہاں انتہا پسند اپنے نقطہ نظر کو ذرائع ابلاغ میں اپنی مرضی کے مطابق جگہ نہ دیے جانے پر صحافیوں کو دھمکاتے ہیں تو وہیں سرکاری ادارے بھی مبینہ طور پر قومی سلامتی کے نام پر مختلف امور پر معلومات کی نشر و اشاعت روکنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
علاوہ ازیں دہشت گردی کے شکار اس ملک میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ متعدد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ انھیں ہدف بنا کر قتل کرنے کے بھی لاتعداد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر اور صحافیوں کے حقوق کے ایک سرگرم کارکن پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستانی صحافی تمام خطرات کے باوجود اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں لیکن ان کے فرائض کی انجام دہی کے لیے حکومت اور صحافتی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔
انھوں نے صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی صحافیوں کے قتل کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے میں ان کی مدد کریں۔
"ابھی تک ایک سو سے زیادہ کیسز ہیں جن میں ملزمان کی گرفتاری باقی ہے اور جو گرفتار ہوئے بھی ہیں تو ان پر مقدمات کی رفتار بھی بہت سست ہے۔ بہرحال ہم جدوجہد کر رہے ہیں ہمیں پوری دنیا کی حمایت چاہیے۔ صحافی ایک تو معاشی بحران کا شکار ہیں اور دوسرا ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ پوری دنیا کی صحافتی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ہماری مدد کریں حکومت پر دباؤ ڈالنے میں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔"
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صحافی بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور انھیں درپیش خطرات کی صورتحال ویسی ہی ہے جیسے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو لاحق ہے تاہم حکومت صحافیوں کو ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لیے ان کی تنظیموں سے مشاورت کر کے مختلف اقدام کر رہی ہے۔
پرویز شوکت کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح پر معلومات تک رسائی کے لیے قانون کا نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے جس کی عدم موجودگی سے ان کے بقول زرد صحافت پروان چڑھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ صحافیوں کو بھی کسی نہ کسی ضابطہ اخلاق کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ہاں کام کرنے والے صحافیوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں۔