صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم کے صدر نے کہا کہ صحافی دوسرے شعبوں کے مسائل و مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں اور عدالتیں بھی ان پر کارروائی کرتی ہیں لیکن ان مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
اسلام آباد —
صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے پیر کو اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں نہ صرف تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران پر تشدد واقعات میں ہلاک یا زخمی ہونے والے صحافیوں کی مالی مدد بھی کی جائے۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام احتجاجی دھرنے میں شامل ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات پر حکومتی ’’بے حسی‘‘ نے انہیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا بظاہر حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں اسی لیے ان کو ہراساں کرنے یا ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے واقعات کی تحقیقات ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہیں۔
’’ہم دوسرے شعبوں کے مسائل و مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں اور عدالتیں بھی ان پر کارروائی کرتی ہیں لیکن ہمارے 95 ساتھی (گزشتہ ایک دہائی کے دوران) مختلف واقعات میں مر چکے ہیں کوئی عدالت از خود نوٹس نہیں لیتی، کوئی حکومت تحقیقات نہیں کراتی۔ ہم کس کے پاس جائیں؟ مالکان تو تنخواہیں نہیں دیتے، مالی امداد تو دور کی بات ہے۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغنستان کے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور شدت پسندوں کی جانب سے صحافیوں اور ان کے پریس کلبوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے صحافی سید ذوالفقار علی شاہ کا کہنا ہے کہ جان ہاتھ میں لے کر صحافت کی جا رہی ہے۔ ’’ڈر تو لگتا ہے مگر ہمیں حالات کا مقابلہ تو کرنا چاہیئے۔ مقابلہ تو کریں گے۔‘‘
صحافیوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے پاکستان کو سن 2010ء اور 2011ء میں صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا جبکہ گزشتہ سال بھی صحافیوں کی اموات میں کمی نہ ہوئی۔ تنظیم کے مطابق مختلف پرتشدد واقعات میں 2012ء کے دوران سات پاکستانی صحافی مارے گئے۔
پرویز شوکت کا کہنا تھا کہ پارلیمان ایک قانون بنائے جس کے تحت صحافیوں کو مالی تحفظ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے وزارت خزانہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کی بہبود سے متعلق منصوبوں کی منظوری میں ’’غیر ضروری‘‘ وجوہات کی بنا پر تاخیر کی جاتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی مرکز میں مخلوط حکومت کا حصہ اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکمران جماعت ہے۔ پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر زاہد خان نے پاکستانی صحافیوں کے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور ڈالیں گے کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
’’صحافی دہشت گردوں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جیسا کہ کوئی اور ادارہ، اس لیے ان کا حق ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے میڈیا کے شعبے میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہے جہاں کئی نیوز کے نجی ٹی وی چینلز سامنے آئیں ہیں وہیں صحافی قدرے آزادی سے مختلف امور اور ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اپنی رپورٹس میں اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے پہلے ’’مقدس گائے‘‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مگر اسی دوران صحافیوں کو ہراساں اور قتل کرنے کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے پیش نظر سکیورٹی کے خطرات کے باوجود صحافیوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات لیے جا رہے ہیں۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام احتجاجی دھرنے میں شامل ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات پر حکومتی ’’بے حسی‘‘ نے انہیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا بظاہر حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں اسی لیے ان کو ہراساں کرنے یا ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے واقعات کی تحقیقات ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہیں۔
’’ہم دوسرے شعبوں کے مسائل و مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں اور عدالتیں بھی ان پر کارروائی کرتی ہیں لیکن ہمارے 95 ساتھی (گزشتہ ایک دہائی کے دوران) مختلف واقعات میں مر چکے ہیں کوئی عدالت از خود نوٹس نہیں لیتی، کوئی حکومت تحقیقات نہیں کراتی۔ ہم کس کے پاس جائیں؟ مالکان تو تنخواہیں نہیں دیتے، مالی امداد تو دور کی بات ہے۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغنستان کے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور شدت پسندوں کی جانب سے صحافیوں اور ان کے پریس کلبوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے صحافی سید ذوالفقار علی شاہ کا کہنا ہے کہ جان ہاتھ میں لے کر صحافت کی جا رہی ہے۔ ’’ڈر تو لگتا ہے مگر ہمیں حالات کا مقابلہ تو کرنا چاہیئے۔ مقابلہ تو کریں گے۔‘‘
صحافیوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے پاکستان کو سن 2010ء اور 2011ء میں صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا جبکہ گزشتہ سال بھی صحافیوں کی اموات میں کمی نہ ہوئی۔ تنظیم کے مطابق مختلف پرتشدد واقعات میں 2012ء کے دوران سات پاکستانی صحافی مارے گئے۔
پرویز شوکت کا کہنا تھا کہ پارلیمان ایک قانون بنائے جس کے تحت صحافیوں کو مالی تحفظ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے وزارت خزانہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کی بہبود سے متعلق منصوبوں کی منظوری میں ’’غیر ضروری‘‘ وجوہات کی بنا پر تاخیر کی جاتی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی مرکز میں مخلوط حکومت کا حصہ اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکمران جماعت ہے۔ پارٹی کے مرکزی ترجمان سینیٹر زاہد خان نے پاکستانی صحافیوں کے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور ڈالیں گے کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
’’صحافی دہشت گردوں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جیسا کہ کوئی اور ادارہ، اس لیے ان کا حق ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے میڈیا کے شعبے میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہے جہاں کئی نیوز کے نجی ٹی وی چینلز سامنے آئیں ہیں وہیں صحافی قدرے آزادی سے مختلف امور اور ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اپنی رپورٹس میں اٹھاتے ہیں جنہیں اس سے پہلے ’’مقدس گائے‘‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مگر اسی دوران صحافیوں کو ہراساں اور قتل کرنے کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے پیش نظر سکیورٹی کے خطرات کے باوجود صحافیوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات لیے جا رہے ہیں۔