کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ و سلامتی کے ضمن میں پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور حکومت کو اس معاملے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیئے۔
اسلام آباد —
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے سلامتی کے خطرات ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔
رواں ہفتے ایک انگریزی ہفت روزہ سے منسلک صحافی علی چشتی کو کراچی میں نامعلوم افراد نے اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک رات حبس بے جا میں رکھنے کے بعد رہا کردیا۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ’سی پی جے‘ نے ایک بیان میں اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے واقعے کی مکمل تحقیقات اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کے ایشیا پروگرام کے معاون باب ڈیٹز نے بیان میں کہا ہے کہ علی چشتی کو حبس بے جا میں رکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے میں ملوث افراد کو سزا دی جانی چاہیئے۔
انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔
باب ڈیٹز کے بقول صحافیوں کے تحفظ و سلامتی کے ضمن میں پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور حکومت کو اس معاملے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیئے۔
پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے عہدیدار پرویز شوکت نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کا شکار صحافی برادری بھی بنتی آرہی ہے لیکن ان کی تنظیم صحافیوں کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
’’موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کا فیصلہ کیا ہے تو دیکھیں ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کچھ کر لے گی۔۔۔ صحافیوں کو سامنا ہے دہشت گرد گروپوں کا، ڈرگ مافیا کا، لینڈ مافیا کا، جن کے خلاف خبر چھپتی ہے تو وہ لوگ کارروائی کرتے ہیں۔ میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔‘‘
رواں سال سی پی جے کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اس تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں مارے جانے والے 80 صحافیوں میں سے کسی ایک کے بھی قتل کی نہ تو مکمل تحقیقات کی گئیں اور نہ ہی کوئی ذمہ دار سزا کا حقدار ٹھہرایا گیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اُن کی تنظمیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
رواں ہفتے ایک انگریزی ہفت روزہ سے منسلک صحافی علی چشتی کو کراچی میں نامعلوم افراد نے اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک رات حبس بے جا میں رکھنے کے بعد رہا کردیا۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ’سی پی جے‘ نے ایک بیان میں اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے واقعے کی مکمل تحقیقات اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کے ایشیا پروگرام کے معاون باب ڈیٹز نے بیان میں کہا ہے کہ علی چشتی کو حبس بے جا میں رکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے میں ملوث افراد کو سزا دی جانی چاہیئے۔
انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔
باب ڈیٹز کے بقول صحافیوں کے تحفظ و سلامتی کے ضمن میں پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور حکومت کو اس معاملے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیئے۔
پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے عہدیدار پرویز شوکت نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب صورتحال کا شکار صحافی برادری بھی بنتی آرہی ہے لیکن ان کی تنظیم صحافیوں کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
’’موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کا فیصلہ کیا ہے تو دیکھیں ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کچھ کر لے گی۔۔۔ صحافیوں کو سامنا ہے دہشت گرد گروپوں کا، ڈرگ مافیا کا، لینڈ مافیا کا، جن کے خلاف خبر چھپتی ہے تو وہ لوگ کارروائی کرتے ہیں۔ میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔‘‘
رواں سال سی پی جے کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اس تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں مارے جانے والے 80 صحافیوں میں سے کسی ایک کے بھی قتل کی نہ تو مکمل تحقیقات کی گئیں اور نہ ہی کوئی ذمہ دار سزا کا حقدار ٹھہرایا گیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اُن کی تنظمیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔