شاہ زیب خان کو گزشتہ سال دسمبر میں کراچی میں بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والے چند لڑکوں نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں حال ہی میں مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکام اور عدلیہ کی توجہ حاصل کرنے والے نوجوان لڑکے شاہ زیب خان کا قتل ایک بار پھر ملک میں اُس وقت موضوع بحث بنا جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ اس کے ورثاء نے قصاص اور دیت کے اسلامی قانون کے تحت قاتلوں کو معاف کرنے کا حلف نامہ عدالت میں پیش کیا ہے۔
ملک میں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ معافی اور خون بہا سے متعلق اس شرعی قانون کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بااثر اور دولت مند افراد دراصل سزاء سے بچنے کے لیے ان قوانین کا استعمال کرتے ہیں اور اسی بات کا اظہار سپریم کورٹ نے حالیہ سماعت کے دوران کرتے ہوئے اس طرح اسلامی قوانین کے غلط استعمال کو فساد فل ارض قرار دیا۔
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شعیب شاہین نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ذیلی عدالتوں میں ان معاملات پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی جس کی ایک وجہ ججوں کی اس بارے میں عدم دلچسپی اور تربیت کی کمی ہے۔
’’یہ کافی نہیں کہ راضی نامہ ہو گیا اس لیے مقدمہ ختم۔ پہلے تو دیکھنا ہے کہ راضی نامے والا مقدمہ بھی ہے یا نہیں۔ دوسرا عدالتوں کا ثواب دیدی اختیار ہے کہ اگر انہیں یقین ہے کہ کسی نے جرم کیا ہے تو تعزیرات کے تحت انہیں سزاء دینی چاہیئے۔‘‘
قصاص و دیت کے قانون کے تحت متاثرہ خاندان قاتل کو خون بہا کی رقم لے کر یا اس کے بغیر بھی معاف کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کوئی عمل کسی دباؤ کے بغیر کیا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ہفتے ہی حکومت سے قصاص و دیت کے قانون کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال کے بارے میں تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔
20 سالہ شاہ زیب خان کو گزشتہ سال دسمبر میں کراچی میں با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر اس واقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سرد مہری پر شدید احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور مفرور ملزمان کی واپسی یقینی بنائی۔
انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دو ملزمان کو سزائے موت اور دیگر دو کو عمر قید کی سزا سنا چکی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم کی روک تھام کے لیے ایسے قوانین کے غلط استعمال کا روکنا نا گزیر ہے۔
’’لیگل فلاسفی میں اصلاحات کا اصول اسی وقت درست ہے جب معاشرے میں ایسے کوئی حالات نا ہوں کہ گواہی کے لیے آپ کوئی بندہ نہیں مل رہا۔ کوئی آگے آنے کو تیار نہیں اور محض تکنیکی بنیادوں پر آپ لوگوں کو بری کر دیتے ہیں تو پھر جرائم میں تو اضافہ ہو گا۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر اور معروف مذہبی شخصیت حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ قصاص اور دیت کے قانون میں رد بدل کی کوئی گنجائش نہیں تاہم اس کے غلط استعمال کو روکنا حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
’’قانون کا غلط استعمال اور چیز ہے۔ قانون کا غلط ہونا اور چیز اور ظاہر ہے غلط استعمال کوئی معاشرہ کرتا ہے تو اس وجہ سے لوگوں کے ہاں وہ قانون بدنام ہوتا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیمیں توہین رسالت اور چند دیگر اسلامی قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ان میں ترامیم یا ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کو عمومی طور پر اقلیتوں کو ہراساں کرنے یا ذاتی بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ملک میں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ معافی اور خون بہا سے متعلق اس شرعی قانون کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بااثر اور دولت مند افراد دراصل سزاء سے بچنے کے لیے ان قوانین کا استعمال کرتے ہیں اور اسی بات کا اظہار سپریم کورٹ نے حالیہ سماعت کے دوران کرتے ہوئے اس طرح اسلامی قوانین کے غلط استعمال کو فساد فل ارض قرار دیا۔
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شعیب شاہین نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ذیلی عدالتوں میں ان معاملات پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی جس کی ایک وجہ ججوں کی اس بارے میں عدم دلچسپی اور تربیت کی کمی ہے۔
’’یہ کافی نہیں کہ راضی نامہ ہو گیا اس لیے مقدمہ ختم۔ پہلے تو دیکھنا ہے کہ راضی نامے والا مقدمہ بھی ہے یا نہیں۔ دوسرا عدالتوں کا ثواب دیدی اختیار ہے کہ اگر انہیں یقین ہے کہ کسی نے جرم کیا ہے تو تعزیرات کے تحت انہیں سزاء دینی چاہیئے۔‘‘
قصاص و دیت کے قانون کے تحت متاثرہ خاندان قاتل کو خون بہا کی رقم لے کر یا اس کے بغیر بھی معاف کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کوئی عمل کسی دباؤ کے بغیر کیا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ہفتے ہی حکومت سے قصاص و دیت کے قانون کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال کے بارے میں تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔
20 سالہ شاہ زیب خان کو گزشتہ سال دسمبر میں کراچی میں با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر اس واقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سرد مہری پر شدید احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور مفرور ملزمان کی واپسی یقینی بنائی۔
انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دو ملزمان کو سزائے موت اور دیگر دو کو عمر قید کی سزا سنا چکی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم کی روک تھام کے لیے ایسے قوانین کے غلط استعمال کا روکنا نا گزیر ہے۔
’’لیگل فلاسفی میں اصلاحات کا اصول اسی وقت درست ہے جب معاشرے میں ایسے کوئی حالات نا ہوں کہ گواہی کے لیے آپ کوئی بندہ نہیں مل رہا۔ کوئی آگے آنے کو تیار نہیں اور محض تکنیکی بنیادوں پر آپ لوگوں کو بری کر دیتے ہیں تو پھر جرائم میں تو اضافہ ہو گا۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر اور معروف مذہبی شخصیت حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ قصاص اور دیت کے قانون میں رد بدل کی کوئی گنجائش نہیں تاہم اس کے غلط استعمال کو روکنا حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
’’قانون کا غلط استعمال اور چیز ہے۔ قانون کا غلط ہونا اور چیز اور ظاہر ہے غلط استعمال کوئی معاشرہ کرتا ہے تو اس وجہ سے لوگوں کے ہاں وہ قانون بدنام ہوتا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیمیں توہین رسالت اور چند دیگر اسلامی قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ان میں ترامیم یا ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کو عمومی طور پر اقلیتوں کو ہراساں کرنے یا ذاتی بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔