ایران نے پاکستانی سرحد کے قریب شدت پسندوں کے حملے میں اپنے 10 سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر پاکستان سے احتجاج کیا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق تہران میں تعینات پاکستان کے سفیر آصف درانی کو جمعہ کو طلب کر کے اُن سے احتجاج کیا گیا اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے امور مغربی ایشیا نے پاکستانی سفیر سے ملاقات میں کہا کہ ایران پاکستان سے توقع کرتا ہے کہ اس حملے میں ملوث دہشتگردوں کی شناخت اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
رواں ہفتے بدھ کی شب ایران کے جنوب مشرقی صوبے سيستان بلوچستان ميں پاکستان اور ايران کی مشترکہ سرحد کے قريب دہشت گردوں نے حملہ کر کے 10 ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے اپنے دو پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان سے تعلقات کشیدہ ہیں اور اُن کے بقول اس طرح کے واقعات سے تہران سے بھی اسلام آباد کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
’’جتنے بھی ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں چاہے بھارت ہو اور افغانستان دونوں سے تعلقات بہت ہی خراب ہیں ۔۔۔ یہ کوشش ہو رہی تھی کہ ایران سے کم از کم بہتر کیےجائیں لیکن آپ نے دیکھا کہ ایک تو پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اتحاد میں شرکت کر رہا ہے اس کی وجہ سے ایران کو بہت پاکستان پر شک و شبہ ہے اور ایک لحاظ سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جس قسم کا واقعہ ہوا ہے اس میں ان کے گارڈز مارے گئے ہیں اور کشیدگی ایک لحاظ سے بڑھے گی اعتماد ایک دوسرے میں کم ہو گا۔‘‘
اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ سے جمعرات کی شب جاری ہونے والے ایک بیان میں ایرانی سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ واقعہ ایرانی سرزمین پر سیستان بلوچستان میں پیش آیا۔
اسلام آباد میں تعینات ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے اس سلسلے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی سے ملاقات بھی کی۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستان ایرانی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ سرحد کی نگرانی اور سکیورٹی بڑھانے کے لیے تعاون کرے گا۔
بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس بارے میں دونوں ممالک کے متعلقہ حکام رابطے میں ہیں۔