پاکستان میں سماجی کارکنوں اور ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ عدم برداشت کے رویے بڑھ رہے ہیں۔
گزشتہ اختتام ہفتہ ایک خبر سامنے آئی کہ کراچی میں ایک 15 سالہ افغان نوجوان کو مبینہ طور پر محض اس لیے قتل کر دیا گیا کیوں کہ اُس نے ایک فلیٹ کی صفائی کے بعد 25 روپے بطور معاوضہ طلب کیے۔
پولیس کے مطابق 15 سالہ نور آغا کو فلیٹ کے مالک ایاز ملک نے کریم آباد کے علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، پولیس نے اس واقعہ کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز ’پمز‘ کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر رضوان تاج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے واقعات سے معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
’’بہت معمولی سے بات پر لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔۔۔ تو یہ ایک طرح کا رویہ ہے جو مایوسی کے سبب پیدا ہوا ہے اور (مایوسی کے شکار ایسے لوگ) کسی کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے اور آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایسے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اُن کے بقول میڈیا کی رسائی بڑھنے سے اب یہ واقعات زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ منفی واقعات اور بیانات کی بجائے میڈیا اور دیگر ذرائع سے مثبت نکتہ نظر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
’’لوگوں کو ایسے واقعات دکھانے چاہیئں، جس میں لوگوں کے رویے مثبت ہوں۔۔۔ وہ لوگ جو باوجود بہت زیادہ پریشانی کے کبھی بھی انتہائی حد تک نہیں جاتے، اس طرح کے لوگوں کو زیادہ دکھانا چاہیے تاکہ ایسے واقعات پیش نا آئیں۔‘‘
واضح رہے کہ رواں ماہ ہی صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں ایک خاتون نے تنخواہ کا مطالبہ کرنے پر 13 سالہ گھریلو ملازم کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لے رکھا ہے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں مشتعل افراد نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر محض الزام کی بنا پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایسا ہی ایک واقعہ رواں سال مردان کی عبدالوالی خان یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں توہین مذہب کے الزام میں ایک نوجوان مشال خان کو بدترین تشدد کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
دریں اثنا گزشتہ سال تشدد کا نشانہ بننے والی کم عمر گھریلو ملازمہ طیبہ کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جہاں عدالت نے طیبہ کے والد کی طرف سے اس معاملے میں مبینہ طور پر ملوث ایک ضلعی عدالت کے جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کرنے سے متعلق صلح نامے کو مسترد کر دیا ہے۔
عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ اس معاملے کے ملزمان پر آئندہ پیشی پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
گزشتہ سال دسمبر کے اواخر میں اس واقعہ کی تفصیلات سب سے پہلے سماجی میڈیا پر آنے کے بعد اسلام آباد کی پولیس نے طیبہ کو جج کے گھر سے برآمد کرنے کے بعد جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا۔