ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکا حادثاتی طور پر بم پھٹنے سے ہوا اور منہدم ہونے والا مکان کالعدم بلوچ تنظیموں کے زیر استعمال تھا جو صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں اتوار کو کار بم دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ دھماکا شہر کے مضافاتی علاقے سریاب کے ایک مکان میں دوپہر کے وقت ہوا، جس سے ہلاک ہونے والوں میں دو بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
دھماکا کی شدت سے دو منزلہ مکان مہندم ہو گیا، جب کہ اس سے متصل گلی میں موجود 10 سے زائد افراد زخمی ہو گئے جنھیں فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
کوئٹہ پولیس کے ڈی آئی جی حامد شکیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکا حادثاتی طور پر بم پھٹنے سے ہوا اور منہدم ہونے والا مکان کالعدم بلوچ تنظیموں کے زیر استعمال تھا جو صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
’’بظاہر مکان کے ایک حصے کا مالک اس گاڑی میں بیٹھ کر کچھ کام کر رہا تھا جب اس میں دھماکا ہوا۔ 14 اگست کی تیاریاں جاری ہیں اور ممکن ہے کہ یہ اس روز تخریب کاری کی کارروائی کی منصوبہ بندی کا حصہ ہو۔ گزشتہ رات بھی ان لوگوں (بلوچ عسکریت پسندوں) نے کوئٹہ پر راکٹ حملے کیے تھے۔‘‘
ڈی آئی جی حامد شکیل نے بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش کے سلسلے میں ان زخمیوں کے بیانات بھی قلمند کرنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے جو اس قابل ہیں تاکہ مکان میں رہائش پذیر کرائے داروں کی شناخت اور دیگر معلومات حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔
اُدھر 2 اگست کو کوئٹہ سے اغواء کیے جانے والے ڈاکٹر غلام رسول اور اقلتیتی ہندو برادری کے تین ممبران کی بازیابی کے لیے صوبائی دارالحکومت اور نواحی علاقوں میں ڈاکٹروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیموں نے جزوی ہڑتال کی جنھیں سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔
قلات میں مظاہرین نے احتجاجاََ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو کئی گھنٹوں تک بند کیے رکھا، جس سے مسافروں خاص طور پر خواتین اور بچوں کو رمضان المبارک کے مہینے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مظاہرین نے ہندو تاجروں کی بازیابی تک روزانہ قلات میں شٹرڈاؤن اور کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بند رکھنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ دھماکا شہر کے مضافاتی علاقے سریاب کے ایک مکان میں دوپہر کے وقت ہوا، جس سے ہلاک ہونے والوں میں دو بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
دھماکا کی شدت سے دو منزلہ مکان مہندم ہو گیا، جب کہ اس سے متصل گلی میں موجود 10 سے زائد افراد زخمی ہو گئے جنھیں فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
کوئٹہ پولیس کے ڈی آئی جی حامد شکیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکا حادثاتی طور پر بم پھٹنے سے ہوا اور منہدم ہونے والا مکان کالعدم بلوچ تنظیموں کے زیر استعمال تھا جو صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
’’بظاہر مکان کے ایک حصے کا مالک اس گاڑی میں بیٹھ کر کچھ کام کر رہا تھا جب اس میں دھماکا ہوا۔ 14 اگست کی تیاریاں جاری ہیں اور ممکن ہے کہ یہ اس روز تخریب کاری کی کارروائی کی منصوبہ بندی کا حصہ ہو۔ گزشتہ رات بھی ان لوگوں (بلوچ عسکریت پسندوں) نے کوئٹہ پر راکٹ حملے کیے تھے۔‘‘
ڈی آئی جی حامد شکیل نے بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش کے سلسلے میں ان زخمیوں کے بیانات بھی قلمند کرنے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے جو اس قابل ہیں تاکہ مکان میں رہائش پذیر کرائے داروں کی شناخت اور دیگر معلومات حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔
اُدھر 2 اگست کو کوئٹہ سے اغواء کیے جانے والے ڈاکٹر غلام رسول اور اقلتیتی ہندو برادری کے تین ممبران کی بازیابی کے لیے صوبائی دارالحکومت اور نواحی علاقوں میں ڈاکٹروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیموں نے جزوی ہڑتال کی جنھیں سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔
قلات میں مظاہرین نے احتجاجاََ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو کئی گھنٹوں تک بند کیے رکھا، جس سے مسافروں خاص طور پر خواتین اور بچوں کو رمضان المبارک کے مہینے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مظاہرین نے ہندو تاجروں کی بازیابی تک روزانہ قلات میں شٹرڈاؤن اور کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بند رکھنے کی دھمکی بھی دی ہے۔