ججز کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات عام کرنے کا فیصلہ، سیاسی و سماجی حلقوں کا خیر مقدم

سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)

پاکستان میں سیاسی و سماجی حلقوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اعلٰی عدلیہ کے ججز کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات عام کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے تمام اداروں میں شفافیت اور احتساب یقینی بنانے کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حال ہی میں جاری کیے گئے فیصلے میں وزارت قانون و انصاف کو ہدایت کی گئی تھی کہ سات روز کے اندر پاکستان میں سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور ان کے معزز ججز کی پینشن اور بعد از ریٹائرمنٹ دی جانے والی مراعات کی معلومات عام کی جائیں۔

علاوہ ازیں انفارمیشن کمیشن نے گزشتہ پانچ برس کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو حکومت یا سرکاری ادارے کی طرف سے الاٹ ہونے والے پلاٹوں کی تفصیل بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انفارمیشن کمیشن نے پاکستان ویمن ایکشن فورم کے ارکان اور بعض دیگر افراد کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر دو جون کو یہ فیصلہ سنایا تھا۔

یہ فیصلہ انفارمیشن کمیشن کے رکن زاہد عبداللہ نے تحریر کیا ہے اور یہ کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے آئین میں 2010 میں کی جانے واالی 18 ویں ترمیم کے ذریعے معلومات تک رسائی کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا جس کے بعد 2017 میں 'رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ' باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا۔

قانون کے تحت پاکستانی شہری سرکاری اداروں کی کارکردگی، ملازمین کی تنخواہوں اور انہیں حاصل مراعات سمیت اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں پر کیے گئے اخراجات سے متعلق معلومات بھی حاصل کر سکتا ہے۔

SEE ALSO: کیا پاکستان میں 'رائٹ ٹو انفارمیشن' قانون کا مؤثر استعمال ہو رہا ہے؟

’عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوگی‘

انفارمیشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے مطابق اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت اگر شہری معلومات حاصل کرنے کا حق استعمال کرتے ہیں تو اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہو گی۔

فیصلے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے رجسٹراز کے بعض خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذکورہ امور سے متعلق معلومات انتظامی نوعیت کی ہیں۔

کمیشن نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے جو معلومات طلب کی ہیں وہ وزارت قانون و انصاف کے پاس ایک نوٹی فکیشن کی صورت میں موجود ہونی چاہیے اور اطلاعات تک رسائی کے قانون کے مطابق یہ معلومات وزارت کی ویب سائٹ پر بھی ہوں۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کی طرف سے پاکستان کی بیورو کریسی، اعلیٰ عدلیہ یا دفاعی اداروں کے عہدے داروں کو ملنے والے تنخواہوں، مراعات اور دیگر فوائد کی تفصیلات تک عوامی رسائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثوں کی تفصیل فراہم کرنے کے پابند ہیں اور ہر سال پاکستان کی قومی اسمبلی ، سینیٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن بعض دیگر اداروں کی طرف سے عہدے داروں کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات عوامی سطح پر ظاہر کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا رہا ہے۔

’مراعات چھپانے کی کوئی وجہ نہیں‘

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے مختلف اداروں کو حاصل مراعات اگر قواعد و ضوابط کے تحت دی گئی ہیں تو انہیں چھپانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور دیگر اداروں کے عہدے داروں کو قانون کے تحت جو مراعات دی جاتی ہیں ان میں شفافیت نہ لانے کی کوئی وجہ نہیں اوران معلومات تک رسائی کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔

حنا جیلانی نےاعلیٰ عدلیہ کی ججوں کی تنخواہوں ور مراعات کو عام کرنے سے متعلق فیصلے کو امورِ ریاست میں شفافیت یقینی بنانے کی جانب پیش رفت قرار دیا ہے۔

SEE ALSO: کیا سوشل میڈیا کے نئے قواعد پر عمل درآمد ممکن ہے؟

دوسری جانب پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری تھنک ٹینک پلڈاٹ کے صدراحمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ آئین میں فراہم کیے گئے اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق کے تحت کمیشن کا فیصلہ بالکل درست ہے۔

احمد بلال کا کہنا ہے کہ ایسا ہی ایک فیصلہ پنجاب انفارمیشن کمیشن دے چکا ہے۔ اس وقت کمیشن کے پاس ایک شکایت آئی تھی جب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ان کی مراعات اور تنخواہ کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں لیکن یہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں تھی۔

اس پر کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے یہ معلومات عام کرنے کا کہا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے یہ معلومات جاری کر دی تھیں۔

احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے قانون سازوں کی تنخواہیں اور ان کی مراعات کے بارے میں پوچھا جاتا تھا لیکن اب قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بارےمیں تفصیلات کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے ۔

ان کےبقول اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات کو عام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ججز کی تنخواہیں زیادہ ہیں لیکن یہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے کام کی نوعیت کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بڑھائی گئی تھیں تاکہ وہ دل جمعی سے کام پرتوجہ دے سکیں۔

ان کے بقول میں ججز کو ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیل بھی ویب سائٹ پر موجود ہونی چاہیے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت پارلیمان اور عدالتیں عوامی ادارے ہیں اور بعض مخصوص اطلاعات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ اسی طرح ان دفاعی اداروں کو بھی وہ معلومات فراہم کرنی چاہیے جو اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت ان کے لیے عام کرنا ضروری ہے۔

یادر ہے پاکستان انفارمیشن کمیشن 2019 میں ایک پاکستانی شہری کی درخواست پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں، الاوئنسزاوران کی ایوان کے اجلاسوں میں شرکت کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دے چکا ہے۔

کون سی معلومات عام نہیں کی جاسکتیں؟

معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت سرکاری اداروں کے پاس بعض معلومات کو عام نہ کرنے کے لیے استثنٰی بھی حاصل ہے جس کی تفصیل اس قانون میں بھی موجود ہے۔

قانون کے مطابق قومی سلامتی کے امور سے متعلق معلومات، مثلاً دفاعی تنصیبات، پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات سے متعلق معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔

البتہ، فوجی اداروں کی فلاح و بہبود اور ان پر آنے والے اخراجات سے متعلق معلومات کے حصول پر کوئی پابندی نہیں۔

لیکن اگر کسی بھی محکمے کا وزیر اس بات کا تعین کرے کہ یہ معلومات فراہم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے تو اس صورت میں وہ یہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔ لیکن اپیل دائر ہونے کی صورت میں انفارمیشن کمیشن ہی حتمی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔