پاکستانی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے اُن سے ’لائن آف کنٹرول‘ پر بھارتی فورسز کی حالیہ فائرنگ سے تین شہریوں کی ہلاکت پر احتجاج کیا۔
اطلاعات کے مطابق منگل کو بھی کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا، جس میں مزید شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ تاہم پاکستان فوج یا وزارت خارجہ کی طرف سے منگل کو ہونے والی فائرنگ کے تبادلے میں نقصانات سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یہ پانچواں موقع تھا کہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے اُن سے احتجاج کیا گیا ہو۔
وزارت خارجہ سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کر کے اُن سے کہا گیا کہ بھارت کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر فائر بندی کے 2003ء کے معاہدے کا احترام کرے۔
بیان کے مطابق پیر ’سات نومبر‘ کو بھارتی فورسز نے نکیال اور جنڈروٹ سیکٹرز میں ’’بلااشتعال‘‘ فائرنگ کی جس سے ایک خاتون سمیت تین شہری ہلاک جب کہ پانچ سالہ بچے سمیت چار دیگر افراد زخمی ہوئے۔
بھارت کی طرف سے اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر فائربندی سے متعلق 2003ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔
اگرچہ ماضی میں بھی اس فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے لیکن حالیہ مہینوں میں ایسے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
’لائن آف کنٹرول‘ اور ’ورکنگ باؤنڈری‘ پر دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور گولہ باری میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت متعدد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
حالیہ کشیدگی میں اضافہ ستمبر کے وسط میں بھارتی کشمیر کے علاقے ’اوڑی‘ میں عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہوا۔
اس حملے کے بعد بھارت نے پاکستانی کشمیر میں عسکریت پسندوں کے اہداف کے خلاف ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کا دعویٰ بھی کیا جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق بھارتی ہائی کمیشن کے تین عہدیدار منگل کو اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتکاروں کے روپ میں آٹھ افراد پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
تاہم بھارت کی طرف سے اس کی سخت تردید کی گئی تھی۔