پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے بھارت کو بھی اُن کے ملک کی طرح غیر معمولی اقدامات کرنے چاہیئں۔
لاہور میں پیر کی شب پاک بھارت اقتصادی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے اعتراف کیا کہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پاکستان اور بھارت باہمی تنازعات کے حل سے متعلق موثر پیش رفت میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اس عرصے میں دونوں ممالک نے کئی جنگیں لڑیں اور ان کی طرف سے اپنائے گئے موقف کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کی فضا پیدا ہوئی۔
’’آج پاکستان میں اس بات پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک مزید کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے اور تمام دوطرفہ تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا ہی واحد راستہ ہے۔‘‘
اس موقع پر اُنھوں نے سیاچن گلیشیئر کے گیاری سیکڑ میں پاکستان کی فوج کے ایک بٹالین ہیڈکواٹرز پر گزشتہ ماہ برفانی تودہ گرنے کے سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اس تنازع کو حل کیا جائے۔
حنا ربانی کھر نے 1989ء میں پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ کا متن پڑھتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے اپنی افواج کے انخلاء کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے عسکری حکام کے درمیان بات چیت پر اتفاق کیا تھا لیکن تقریباً 23 برس بعد بھی اس سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
7 مئی کو گیاری میں قائم سکس ناردرن لائٹ انفنٹری کے بٹالین ہیڈکوارٹرز پر برفانی تودہ گرنے سے 140 کے قریب افراد، جن میں اکثریت فوجیوں کی ہے، 200 فٹ برف تلے دب گئے اور ایک ماہ کی مسلسل کوشش کے باوجود تاحال اس تنصیب کی عمارتوں تک رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان وزیر خارجہ نے متنبہ کیا کہ دونوں ممالک میں سخت گیر موقف رکھنے والے ایسے عناصر موجود ہیں جو گشیدگی کی فضا قائم رکھنے کے حامی ہیں، اور ان کے بقول ان عناصر کی حوصلہ شکنی کا واحد ذریعہ دونوں حکومتوں کی جانب سے تعلقات میں بہتری اور دوطرفہ مسائل کے حل پر نتیجہ خیز بات چیت ہی ہے۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تجارت کا فروغ شاید کشمیر اور سیاچن جیسے درینہ تنازعات کے حل کی وجہ نا بن سکے، لیکن اقتصادی روابط میں اضافے سے یقیناً ناصرف ساز گار ماحول قائم ہو گا بلکہ دوطرفہ اعتماد سازی کے عمل کو بھی تقویت ملے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کو اقتصادی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتا ہے تاکہ خطے کی افرادی قوت کی صلاحیتوں کو لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔