ممبئی حملوں سے متعلق ’غلط تاثر‘ کو زائل کریں گے: وکیل صفائی

فائل فوٹو

وکیل صفائی رضوان عباسی کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پیدا کردہ اس عوامی تاثر کی وجہ سے ان کے موکل کے خلاف مقدمے پر بھی ’’قدرِ منفی اثرات‘‘ مرتب ہو رہے ہیں۔
ممبئی حملوٕں سے متعلق پاکستان میں چلنے والے مقدمے میں نامزد ملزمان کے وکلاء نے فیصلہ کیا ہے کہ نومبر 2008ء میں پیش آئے اس واقعے سے متعلق ملک میں پائے جانے والے ’’غلط تاثر‘‘ کو زائل کرنے کے لیے عوام کو ’’حقائق‘‘ سے آگاہ کیا جائے۔

حال ہی میں مقرر کردہ وکیل صفائی رضوان عباسی کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پیدا کردہ اس عوامی تاثر کی وجہ سے ان کے موکل کے خلاف مقدمے پر بھی ’’قدرِ منفی اثرات‘‘ مرتب ہو رہے ہیں۔

’’صرف یک طرفہ موقف کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے اور بہت سارے اصل حقائق اور گرے ایریا کو پاکستان میں کسی نے چھوا تک نہیں۔ تو ان چھپے حقائق کو عوام کے سامنے لانے کی بہت ضرورت تھی۔ ہم عدالتوں میں یقیناً یہ مقدمہ لڑ رہے ہیں لیکن اس سے متعلق غلط تاثر کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘

عدالتی کارروائی میں سست روی سے بظاہر نالاں وکیل صفائی نے کہا کہ ابھی تک استغاثہ اس بات کو ثابت نہیں کر پایا کہ پاکستان میں زیر حراست ملزمان کا ممبئی حملوں یا حملہ آوروں سے کسی قسم کا رابطہ تھا یا نہیں۔

بھارتی شہر میں دہشت گردی کے حملے کو پانچ سال منگل کو مکمل ہو رہے ہیں اور پاکستان میں زیر حراست سات ملزمان کے خلاف مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ابھی بھی زیر سماعت ہے۔

وکیل دفاع کے مطابق کالعدم عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمٰن لکھوی سمیت زیر حراست افراد کے خلاف ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی، حملہ آوروں کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کے الزامات ہیں۔

2008ء میں ممبئی میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے جن میں چند امریکی اور دیگر ملکوں کے شہری بھی شامل تھے۔ بھارت نے اس کی ذمہ داری لشکر طیبہ پر عائد کی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رضوان عباسی نے اب تک مقدمے میں تاخیر کا الزام بھارتی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مقامی عدالت میں اس معاملے کو تیزی سے نمٹانے کی کوششیں کی جائیں گی بصورت دیگر اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
’’شروع ہی سے (بھارت کی طرف سے) لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ پاکستان نے جو سوالات اٹھائے یا معلومات مانگیں، ان کے جواب کب ملے؟ ایک سال سے زائد عرصہ لگا۔ پھر اجمل قصاب اور دیگر شواہد تک رسائی نا دینا تمام تاخیر کی وجہ بنیں۔ جو شواہد بھی دیے گئے اس پر عدالت نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ قابل تسلیم ہیں بھی یا نہیں۔‘‘

استغاثہ کے وکیل بھی ماضی میں بھارت کے اسی رویے پر نا صرف تشویش کا اظہار کرچکے ہیں بلکہ کہہ چکے ہیں کہ اجمل قصاب کو پھانسی سے ان کا مقدمہ قدرے کمزور ہوا ہے۔

دس حملہ آوروں میں سے اجمل قصاب وہ واحد عسکریت پسند تھا جو بھارتی سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کی کارروائی میں بچ گیا تاہم گزشتہ سال عدالتی کارروائی کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔

نئی دہلی کی اجازت پر حال ہی میں ایک پاکستانی عدالتی کمیشن نے بھارت کا دورہ کرتے ہوئے متعلقہ سرکاری عہدیداروں سے جرح کی۔