بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے سے قبل پاکستان میں مشاورت

بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے سے قبل پاکستان میں مشاورت

رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے وزیر تجارت امین فہیم نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ دونوں ملکوں نے وزراء تجارت کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں تجارتی حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات کے لیے ویزہ شرائط میں نرمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔

جنوبی ایشیا کے روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے تعلقات شروع سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ 2008 ء میں ممبئی حملوں کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد اب دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں جہاں پاک بھارت وزراء خارجہ سطح پر ملاقاتیں اور جامع مذاکرات کا دور دوبارہ شروع ہوا ہے وہیں پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھنے کے لیے مشاورت جاری ہے۔

بھارت سے تجارتی روابط کے فروغ کے لیے وزرات تجارت کے سیکرٹری ظفر محمود نے کاروباری طبقے سے مشاورت کا پہلا دور جمرات کو لاہور ایون صنعت و تجارت کے نمائندوں سے شروع کیا۔ ایک ہفتے طویل اس مشاورتی عمل کا مقصد تاجر برادری کی رائے اور تجاویز حاصل کرنا اور ان کی بنیاد پر ان اشیاء کی حتمی فہرست تیار کرنا ہے جن کے علاوہ بھارت سے ہر چیز درآمد کی جا سکے گی۔

ماہرین کا خیال ہے تجارتی روابط بڑھانے کی یہ مہم آگے چل کر تجارت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے تحت بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک یا ایم ایف این کا درجہ دینے کی راہ بھی ہموار کرے گی۔ جس کا پاکستان کے بقول اصولی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ بھارت نے 1996ء میں پاکستان کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیا تھا۔

پاکستان میں بعض حلقے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وہ ان خدشات سے متفق نہیں ہیں۔’’پاکستانی مصنوعات کو مقابلے کا سامنا ہو گا۔ اگر بھارت برآمدات پرعائد پابندیاں اٹھا دے تو پاکستان اپنی برآمادت بڑھا سکتا ہے بھارت پاکستان کے لیے بڑی مارکیٹ ہے‘‘۔

سرتاج عزیز (فائل فوٹو)

پاکستان میں ابھی بھی مذہبی جماعتیں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کی روایتی طور پر مخالف ہیں۔ مذہبی جماعتیں مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے محدود روابط کی حامی ہیں۔ یہی وجہ کہ ابھی تک پاک بھارت تجارت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔اگرچہ اس موقف میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران تبدیلی آئی ہے اور دنوں ممالک مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ساتھ عوام کی سطح پر روابط کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

سرتاج عزیز کا کہنا ہے اقتصادی روابط بڑھانے سے دونوں ملک دو طرفہ تنازعات کے حل کے طرف باہمی پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ ’’ اگر تجارت شروع ہو تو پاکستان کو سفارتی سطح پر مسئلوں کے حل کے لیے جانا پڑے گا۔ یہ مرحلہ وار بہتری ہے جو جامع مذاکرات سی بی ایم سے تنازعات کے حل اور پھر resolving the Issue کی طرف جا سکتی ہے۔ ‘‘

رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے وزیر تجارت امین فہیم نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ دونوں ملکوں نے وزراء تجارت کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں تجارتی حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات کے لیے ویزہ شرائط میں نرمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔