پاکستان اور بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پانچ روز سے جاری جھڑپوں سے دونوں ممالک شہریوں کے جانی نقصان کے دعووں کے علاوہ ایک دوسرے کو سرحدی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں کے حکام نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی فوج نے ضلع پونچھ میں ایل او سی کے مینڈھر سیکٹر میں بھارتی فوج کی چیک پوسٹس اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے ہلکے اور درمیانے درجے کے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان رینجرز نے بین الاقوامی سرحد کے ہیرا نگر سیکٹر میں بھی بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
کرونا وائرس کے باعث صحت عامہ کو درپیش مشکلات اور خوف کے ماحول میں دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپوں کو ماہرین افسوس ناک قرار دے رہے ہیں۔
بھارت کے دفاعی تجزیہ کار ایئر وائس مارشل (ر) کپل کاک نے کرونا وائرس کی موجودہ صورتِ حال میں سرحدوں پر گولہ باری کو شرمناک قرار دیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے انتہائی شرمناک ہے۔ کووڈ-19 کی وجہ سے یمن اور شام میں سیز فائر ہوا ہے۔ دنیا بھر کے تنازعات میں کمی آئی ہے۔ لہذٰا پاکستان اور بھارت کو بھی اس صورتِ حال میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔"
ایئر وائس مارشل (ر) کپل کاک کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے سول اور فوجی حکام سے استدعا کرتے ہیں کہ آپس میں لڑنے کے بجائے کرونا جیسے چیلنج کا مقابلہ کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارتی حکام کا یہ بھی دعوی ہے کہ بھارتی فوج اور بی ایس ایف نے بلا اشتعال پاکستانی فائرنگ اور شیلنگ کا فوری اور سخت جواب دیا۔
اتوار کو دونوں جانب سے ایک دوسرے کی چوکیوں اور تنصیبات پر گولہ باری کے دوران کئی گولے شہری علاقوں میں گرے جس سے دو بچوں سمیت چار افراد ہلاک اور ایک درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ متعدد رہائشی مکانات اور املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
یہ سلسلہ گزشتہ ہفتے بھارتی کشمیر کے شمال مغربی ضلع کپواڑہ کے کیرن سیکٹر میں ایک جھڑپ میں پانچ مشتبہ عسکریت پسندوں اور اتنی ہی تعداد میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا۔ بعض اطلاعات میں اس تصادم میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد آٹھ بتائی گئی تھی جن میں ایک جونئیر کمشنڈ افسر بھی شامل تھا۔
اس واقعے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے نام پوشیدہ رکھتے ہوئے بھارتی فوج اور سیکیورٹی حکام کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ بھارتی فوج نے ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے کنٹرول لائن کے قریب پاکستانی علاقے میں "دہشت گردوں" کے ایک اہم ٹھکانے کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے تباہ کر دیا ہے۔ کارروائی میں پاکستانی فوجیوں کے ہلاکت کے دعوے بھی کیے گئے تھے۔
البتہ پاکستان نے ان دعووں کی تردید کی تھی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے رواں سال 715 مرتبہ جنگ بند معاہدے کی خلاف ورزی کی جب کہ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان نے 800 مرتبہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
ایک اور بھارتی دفاعی تجزیہ کار اور سرکردہ صحافی پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن پر ہونے والی ان جھڑپوں اور کووڈ-19 سے پیدا شدہ صورتِ حال کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ انہیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ حالات چاہے جو بھی ہیں ان دونوں ملکوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ "کنٹرول لائن پر جو سرگرمی دیکھی گئی ہے وہ چلتی رہے گی۔ میں ان دونوں چیزوں کو آپس میں نہیں ملاؤں گا۔ یہ بالکل الگ الگ معاملات ہیں۔"
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اگر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم یہ طے کر لیتے ہیں کہ اس سرگرمی کو موجودہ حالات میں روکنا چاہیے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت سفارتی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقات ٹھیک یا معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ اس لیے اس سلسلے میں کسی پیش رفت کی کم ہی امید کی جانی چاہیے۔"
خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اپیل کی تھی کہ ممالک تنازعات کو پسِ پشت رکھ کر کرونا وائرس جیسی مہلک وبا کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات گزشتہ سال فروری سے ہی کشیدہ ہیں۔ بھارتی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خود کش حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان فضائی جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید وسیع کر دیا تھا۔ سیز فائر معاہدے کے باوجود دونوں ملک لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں میں ملوث رہتے ہیں۔