کشمیر کی متنازع سرحد پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری

وادی نیلم کا سرحدی گائوں، جوڑا (فائل)

پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ دو روز سے کشمیر کی متنازعہ سرحد پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ دونوں فریق لڑائی شروع کرنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا ہے کہ کم از کم چھہ شہری جن میں بچے بھی شامل ہیں لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب شدید زخمی ہوئے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بھارتی فوج پر کشمیر میں جنگ بندی لائن کے نزدیک ''جان بوجھ کر دیہاتیوں کو نشانہ بنانے لے لئے توپ خانہ اور بھاری مارٹر استعمال کرنے'' کا الزام لگاتے ہوئے بتایا کہ ''پاکستانی فوج نے اسکا موثر جواب دیا''۔

ادھر بھارت نے پاکستانی فوجوں پر ''جنگ بندی لائن کی قریب اگلے مورچوں اور دیہات پر حملے کرکے لڑائی کے آغاز'' کا الزام لگایا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایک فوجی ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ ''پاکستانی افواج نے ہفتے کی صبح پھر سے جارحیت شروع کی اور چھوٹے ہتھیاروں سے شدید نوعیت کی شیلینگ کی، جسکا بھارتی فوج نے مناسب جواب دیا''۔

لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں ایک معمول بن گئی ہیں، جن میں دونوں جانب سے زیادہ تر بے گناہ شہریوں کا نقصان ہوتا ہے اور ان جھڑپوں نے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشمیر میں عارضی صلح کے ایک معاہدے کو نقصان پہنچایا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی خاص طور پر اگست 2019ء کے بعد سے بہت بڑھی ہے، جب بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کے متنازعہ خطے کے دو تہائی حصے کی وہ نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی، جو اسے آئین کے تحت ملی ہوئی تھی۔

پاکستان نے اس اقدام کو اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

پاکستان نے اپنے قریبی اتحادی چین کی مدد سے یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا۔ لیکن، نئی دہلی نے اسے غیر ملکی مداخلت قرار دیا اور کہا ہے کہ کشمیر کو دی گئی حیثیت کو ختم کرنا اس کا اندرونی معاملہ ہے۔