سرحدی کشیدگی کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں: پاکستان

وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کی ملاقات تاحال نہیں ہوئی ہے، تاہم وہ حالیہ دنوں میں ٹیلی فون پر دو مرتبہ رابطہ کر چکے ہیں، جب کہ ورکنگ باؤنڈری پر مقامی کمانڈروں نے بھی فلیگ میٹنگ کی۔
پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ سرحدی کشیدگی دور کرنے کے لیے پاک بھارت عسکری عہدیداروں کی مجوزہ ملاقات کو عملی جامہ پہنانے کے عزم پر قائم ہے۔

کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی سرحد ’لائن آف کنٹرول‘ اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے ضلع سیالکوٹ کے درمیان عارضی سرحد ’ورکنگ باؤنڈری‘ پر اگست کے اوائل سے کشیدگی میں اُتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے، اور اس عرصے کے دوران دونوں ممالک کی جانب سے متعدد فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کے دعوے بھی کیے جا چکے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے نیو یارک میں گزشتہ ماہ ہوئی ملاقات میں سرحدی کشیدگی دور کرنے کے لیے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ملاقات پر اتفاق کیا تھا۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے جمعرات کو نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اعلیٰ عسکری عہدیداروں کی ملاقات تاحال نہیں ہوئی ہے، تاہم وہ حالیہ دنوں میں ٹیلی فون پر دو مرتبہ رابطہ کر چکے ہیں، جب کہ ورکنگ باؤنڈری پر مقامی کمانڈروں نے بھی فلیگ میٹنگ کی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان رابطوں میں سرحدی صورت حال کو معمول پر لانے اور 2003ء میں طے پائے فائربندی کے دوطرفہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

’’پاکستان دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے اُس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پُر عزم ہے جس کے مطابق لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائربندی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ڈی جی ایم اوز کو ملاقات کرنی چاہیئے۔‘‘

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان تمام دوطرفہ تنازعات بشمول کشمیر پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوششوں میں تیسرے فریق کے کردار پر اس کو کوئی اعتراض نہیں۔

اُن کا یہ بیان پاکستان کے اُس موقف کی تائید میں تھا جس کے تحت وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے حالیہ بیانات میں تنازع کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم نے لندن میں بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھی یہ موقف دہرایا تھا۔

’’بھارت تو یہی کہتا رہا ہے کہ اس (کشمیر کے معاملے) پر کسی تیسرے فریق کا کردار نہیں ہونا چاہیئے، ہم کہتے ہیں ہونا چاہیئے۔ آپس میں تو یہ مسئلے کو حل نہیں کر پائے، 65 سال ہو گئے ہیں، ہم تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شاید، اس مسئلے کو پھر یہ ٹالنے والی بات ہے۔‘‘

وزیرِ اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت سے قریبی تعلقات اُستوار کرنے کا خواہاں ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون میں بھی اضافہ ہو۔