حزب مخالف کی ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل ملک میں آئندہ انتخابات کی شفافیت کے لیے بہت اہم قدم ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات اپنی جگہ لیکن جب تک انتخابات میں دھاندلی کے مرتکب لوگوں کو بے نقاب کر کے انھیں سزائیں نہیں دی جائیں گی الیکشن میں بے ضابطگیوں کی شکایات کا ازالہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔
"1970ء کے انتخابات کے علاوہ جب بھی الیکشن ہوا تو ہارنے والا شور مچاتا رہا ہے کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ یہ تحریک انصاف کی جیت نہیں یہ پاکستانی عوام کی جیت ہے، کم از کم اب یہ ہوگا کہ اگلا الیکشن ٹھیک ہو گا۔"
انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے معاہدے پر بدھ کو دیر گئے حکمران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد ایک عرصے سے ملک میں جاری سیاسی تناؤ میں بظاہر وقتی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
دونوں جماعتوں نے اسے ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک اہم موقع قرار دیا جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس پر قدرے اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اسے حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کا نام بھی دیا جارہا ہے جسے یہ دونوں ہی مسترد کرتے ہیں۔
معاہدے پر دستخط کرنے والے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس معاملے پر اپنی سنجیدگی کا ثبوت دے دیا ہےاور اب یہاں سے دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔
عمران خان مسلم لیگ ن پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے گزشتہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے اقتدار حاصل کیا اور اس پر ان کی جماعت چار ماہ تک اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیے بیٹھی رہی جب کہ قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے بھی اس جماعت کے ارکان نے استعفے دے دیے تھے۔
پی ٹی آئی نے پہلے یہ عندیہ دیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد ان کے ممبران قومی اسمبلی میں واپس آسکتے ہیں لیکن جمعرات کو عمران خان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ان کی جماعت میں رائے منقسم ہے اور مکمل مشاورت کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
"پارٹی میں تقسیم ہے، کیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کا فصیلہ نہ آجائے تب تک اسمبلی میں نہیں جانا، کچھ کہتے تھے کہ جب تک کمیشن تشکیل نہ ہو جائے تب تک نہیں جانا تو ہماری ایک جمہوری جماعت ہے، اجلاس بلائیں گے اس میں بات کریں گے۔"
ادھر پی ٹی آئی کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 246 سے ضمنی انتخاب میں بھی حصہ لے رہی ہے۔
کراچی میں یہ حلقہ روایتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور گزشتہ عام انتخابات میں یہاں سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر نبیل گبول کامیاب ہوئے تھے جنہوں نے حال ہی اسمبلی اور پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
اس نشست پر 23 اپریل کو انتخاب ہونے جا رہا ہے جس کے لیے 15 اُمیدوار میدان میں ہیں لیکن پی ٹی آئی کے عمران اسماعیل اور ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ یہ انتخاب رینجرز کی زیر نگرانی ہو جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے اس پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔