آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا ساتواں دور پیر کو ہوگا: پاکستان

پاکستانی وزیرخزانہ اور آئی ایم ایف کے عہدیدار (فائل فوٹو)

ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں آ ئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے لیے 55 کروڑ ڈالر کے قسط کے ادائیگی کی منظوری دے گا

پاکستان اور عالمی مالیاتی فند یعنی آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا ساتوان دور پیر کو اسلام آباد میں شروع ہو رہا ہے جس میں پاکستان کے لیے 55 کروڑ ڈالرز کی آئندہ قسط کے اجراء سے متعلق بات چیت ہوگی۔

آ ئی ایم ایف کے وفد کی قیادت ہیرالڈ فنگر کریں گے جبکہ پاکستان کے وفد کی قیادت وزیر خزانہ اسحاق ڈار کریں گے۔

ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں آ ئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے لیے 55 کروڑ ڈالر کے قسط کے ادائیگی کی منظوری دے گا جو جون کے اواخر یا جولائی کے اوائل میں ملنے کی توقع ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات اس ہفتے دبئی میں ہو چکے ہیں۔

ماہر اقتصادیات سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان مذاکرات کو پاکستان کے لیے بہت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے حکومت کے مالی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

"یہ پروگرام معیشت کو مستحکم کرنے کا پروگرام ہے اور اس پروگرام میں اہداف ہیں، مالیاتی خساے کے اہداف ہیں غیر ملکی زر مبادلہ کے ہداف ہیں، جب وہ پورے ہو جاتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ معیشت متوازن ہے اگر بنیادی طور پر اہداف پورے ہو جاتے ہیں تو ملک کا مالیاتی نظم و نسق صحیح ہے اور افراط زر کی شرح بھی مقرر حد میں ہے تو ملک کی معیشت میں استحکام ہے تو اگر (آئی ایم ایف کی قسط ) ملتی جائے تو اس سے ہو سکتا ہے (پاکستان کی) درجہ بندی بہتر ہو جائے اور اس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم سے ملک کی اقتصادی ترقی کا براہ راست تو کوئی تعلق نہیں لیکن اس سے بین الاقوامی سطح پر حکومت پر اعتماد میں اضافہ ہوتا اور سرمایہ کاروں کو پتا چلتا ہے کہ اس ملک کی معیشت صحیح ڈگر پر گامزن ہے۔

پاکستان کی معاشی حالت کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کی وزرات خزانہ اور آئی ایم وفد کے درمیان مذکرات ہر تین ماہ بعد ہوتے ہیں۔

آئی ایم ایف نے 2013ء میں پاکستان کو تین برسوں کے دوران کل سات ارب 78 کروڑ سے زائد کا قرض قسطوں میں دینے کی منظوری دی تھی۔ مارچ میں منظور کی گئی قسط کے اجراء کے بعد پاکستان کو فراہم کردہ قرض تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر ہو گیا ہے۔