ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ راشد رحمن کو دھمکیاں دینے اور قتل والوں کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن نے اپنے ایک دیرینہ رکن راشد رحمٰن کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکام کو انھیں ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں پہلے ہی مطلع کیا گیا تھا لیکن اس ضمن میں کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
راشد رحمن پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور انھیں بدھ کو نامعلوم مسلح افراد نے ملتان میں ان کے دفتر میں گھس پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
جمعرات کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ دس اپریل کو حکام کو مطلع کیا گیا تھا کہ توہین مذہب کے ایک ملزم کی وکالت کرنے پر ایک پیشی کے دوران استغاثہ کے وکلا نے بھی راشد رحمن کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی تھیں۔
بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ توجہ دلائے جانے کے باوجود بھی راشد رحمن کو دھمکیاں دینے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ راشد رحمن کو دھمکیاں دینے اور قتل کرنے والوں کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے جب کہ ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
راشد رحمن کے قتل کے خلاف ملتان میں وکلا نے جمعرات کو احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ انھیں توہین مذہب کے ایک ملزم کی وکالت کرنے پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کافی عرصے سے زیر بحث ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سماجی حلقے ان قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ان میں ترامیم کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
ایسے ہی مطالبے پر 2011ء میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ہی ایک محفاظ نے اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب کہ وفاقی دارالحکومت ہی میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کو نا معلوم افراد نے بظاہر انھی مطالبات پر گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
راشد رحمن پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور انھیں بدھ کو نامعلوم مسلح افراد نے ملتان میں ان کے دفتر میں گھس پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
جمعرات کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ دس اپریل کو حکام کو مطلع کیا گیا تھا کہ توہین مذہب کے ایک ملزم کی وکالت کرنے پر ایک پیشی کے دوران استغاثہ کے وکلا نے بھی راشد رحمن کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی تھیں۔
بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ توجہ دلائے جانے کے باوجود بھی راشد رحمن کو دھمکیاں دینے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ راشد رحمن کو دھمکیاں دینے اور قتل کرنے والوں کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے جب کہ ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
راشد رحمن کے قتل کے خلاف ملتان میں وکلا نے جمعرات کو احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ انھیں توہین مذہب کے ایک ملزم کی وکالت کرنے پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کافی عرصے سے زیر بحث ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سماجی حلقے ان قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ان میں ترامیم کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
ایسے ہی مطالبے پر 2011ء میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے ہی ایک محفاظ نے اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب کہ وفاقی دارالحکومت ہی میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کو نا معلوم افراد نے بظاہر انھی مطالبات پر گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔