’قتل کرنے میں غیرت نہیں‘

’قتل کرنے میں غیرت نہیں‘

خواتین کو درپیش سماجی ناانصافی کے خلاف آوازاٹھانے کی ایسی ہی ایک کوشش کی ہے منتظم نیلوفر فرخ اور پاکستان کے ان 35 مصوروں نے جن کی پاکستان میں غیرت کے نام پرقتل اور تشدد کے دیگر واقعات کے خلاف فن پاروں کی صورت میں آواز ان دنوں کراچی کی وی ایم آرٹ گیلری میں بڑی تعداد میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں

کسی شوہرکا بیوی کو یا بھائی کا بہن کو شک کی بناء پر قتل کردینا، کسی باپ کا بیٹی کو یا رشتہ داروں کا ایک عورت کو اپنی مرضی کی شادی پرموت کی بھینٹ چڑھادینا یا پھر اپنی فرسودہ روایات کی پاسداری کرنے والے قبائل کا خواتین پر تسلط قائم رکھنے کے لیے انھیں خونخوار جانوروں کے آگے پھینک دینا ۔

یہ اور خواتین پر اس جیسی تشدد کی دیگر خبریں آئے دن پاکستان میں اخبارات کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔سوائے چند لوگوں کے ایک بڑا طبقہ ان واقعات پر خاموش رہتا ہے۔مگر معاشرے کا درد رکھنے والے حساس لوگ اپنی کوششوں اور صلاحیتوں کے ذریعے وقتاً فوقتاً ان غیر انسانی رویوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

خواتین کو درپیش سماجی ناانصافی کے خلاف آوازاٹھانے کی ایسی ہی ایک کوشش کی ہے منتظم نیلوفر فرخ اور پاکستان کے ان 35 مصوروں نے جن کی پاکستان میں غیرت کے نام پرقتل اور تشدد کے دیگر واقعات کے خلاف فن پاروں کی صورت میں آواز ان دنوں کراچی کی وی ایم آرٹ گیلری میں بڑی تعداد میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ” قتل کرنے میں غیرت نہیں “ کے نام سے یہ نمائش ان خواتین کے نام کی گئی ہے جنھیں سال 2008 میں صوبہ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں غیرت کے نام پر زندہ درگور کردیا گیا تھا۔

(تصاویر مقصود مہدی)

واضح رہے کہ 11 اگست 2008 ء کو ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے یہ خبر منظرِعام پر آئی کہ ضلع جعفر آباد کے شہر اوستہ محمد سے 80 کلومیٹر دور علاقہ بابا کوٹ میں پانچ خواتین کو زندہ دفن کردیا گیا۔ ان خواتین میں تین غیر شادی شدہ اور کم عمر بتائی جاتی تھیں جو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی خواہاں تھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ سول کورٹ جارہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق یہ واقعہ رپورٹ کی گئی تاریخ سے ایک ماہ قبل پیش آیا تھا ۔ تاہم اب تک اس سفاکی کے مرتکب افراد کو بااثر ہونے کی وجہ سے کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔

منتظم نیلو فرفرخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب دو سال پہلے یہ واقعہ پیش آیا تو پوری قوم نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔لوگوں کو صدمہ تھا، غصہ تھا اور بے بسی کا احساس تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے میں نے مختلف چھوٹے بڑے شہروں کے آرٹسٹوں سے رابطہ کیا اور انھیں اس موضوع پر کام کرنے کے لیے کہا۔ یوں سب سے پہلے ہم نے خیر پور اور جامشورو سے اس نمائش کا آغاز کیا اور پھر اسلام آباد ، لاہور اور اب اس کی آخری منزل کراچی ہے لیکن یہ کوشش جاری رہے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ملتان بہاولپور اور کوئٹہ بھی جانا چاہتی تھیں لیکن وہا ں کے لیے حالات سازگار نہیں تھے۔

اس نمائش میں بنیادی طور پر 35 مصوروں کا کام شامل ہے تاہم یہ گروپ جن علاقوں میں جاتا گیا وہاں کے آرٹسٹوں کو بھی اس حوالے سے اپنا کام شامل کرنے کا موقع دیا گیا۔ نیلوفر بتاتی ہیں کہ اس پراجیکٹ کا ایک اہم پہلو کمیونٹی ڈائیلاگ بھی تھا۔ ”ہم جن علاقوں میں گئے وہاں نمائش کے بعد علاقے کے لوگوں کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت کرتے تھے۔ لوگ خاموش ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تبدیلی نہیں چاہتے ۔ان کو معلوم نہیں کہ تبدیلی کے لیے کیا راستہ اختیار کریں جیسے کہ بات چیت ۔ جام شورو میں نوجوانوں کا ایک بہت بڑا گروپ ڈائیلاگ میں شامل تھا اور تبدیلی چاہتا تھا ۔ یہ ایک بہت مثبت علامت تھی اور ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ اب جرم کے اردگرد خاموشی کو ٹوٹنا چاہئیے ۔“

یہ نمائش خواتین کے خلاف تشدد کی مختلف سمتوں کو ظاہر کرتی ہے تاکہ آرٹ اور بات چیت کے ذریعے سماجی تغیر کے عمل میں تیزی آئے۔ نیلوفر کہتی ہیں کہ اس ایگزی بیشن میں حقوقِ نسواں کی کئی تنظیموں نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا ہے ۔ پورے پاکستان سے انھیں فن پارے موصول ہوئے اور ہر ایک کی آواز یہاں شامل ہے۔ واقعات کی براہِ راست منظر کشی سے لے کر پیچیدہ علامتوں کے ذریعے تشدد کی مختلف سمتوں کو کینوس پر منتقل کیے گئے نمائش میں شامل میں یہ فن پارے دیکھنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اس سنجیدہ موضوع پر سوچیں اور غیر انسانی افعال کے خلاف خاموشی ختم کرکے معاشرے کے ہر طبقے کے خلاف ناانصافی کو ختم کریں۔

’قتل کرنے میں غیرت نہیں‘

نیلوفر اور ان کے ساتھیوں نے دو سال پہلے اس سفر کا آغاز کیا ۔ اس سوال پر کہ نمائش کے دو سال بعد وہ کیا تبدیلی دیکھتی ہیں نیلوفر کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر تشددکے واقعات تو کم نہیں ہوئے کیوں کہ جو ادارے معاشرے کو تحفظ دیتے ہیں وہ سیاسی وابستگیوں سے خالی نہیں۔ لیکن جہاں تک آگاہی کی بات ہے تو خاص کر دیہی علاقوں میں بہت تبدیلی آئی ہے اس لیے بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہئیے کیوں کہ اس سے سوچ بہت بدلتی ہے اور مسائل کے حل کا راستہ بھی اسی میں ہے۔