جس گھر میں بیری ہو وہاں پتھر ضرور آتے ہیں۔ یہ تو بہرحال ایک کہاوت ہے اور اپنے اندر لوک دانش رکھتی ہے مگر شہد کے کاروبار سے وابستہ افراد کے لیے بیرکا درخت بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے حاصل ہونے والا شہد نہ صرف مہنگا ترین بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ان دنوں شہد کی پیداوار کا موسم ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کی مصروفیت دیدنی ہے۔
’پاکستان بی کیپرز اینڈ ہنی ڈیلرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر نعیم قاسمی کہتے ہیں کہ اکتوبر سے فروری اور مارچ تک شہد سے بھرے تقریباً 300 کنٹینرز خلیجی ریاستوں اور عرب ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیں اور ایک کنٹینر میں 18 سے 20 ہزار کلوگرام شہد ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ مالٹا، برسین، سورج مکھی اور مختلف پھولوں سے شہد کی مکھیاں رس کشید کرتی ہیں مگر بیر کا شہد اپنی مثال آپ ہے اور اس کی عالمی منڈی میں بہت مانگ ہے۔’’یمن کے بعد پاکستان کا شہد کوالٹی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور اس کی اتنی ڈیمانڈ ہے کہ پوری کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘
صوبہ پنجاب میں اٹک، میانوالی، چکوال اور چند دیگر اضلاع جب کہ خیبرپختونخواہ میں نوشہرہ، کوہاٹ اور خصوصاً کرک شہد کی پیداوار کے حوالے سے نمایاں ہیں۔
نعیم قاسمی کے بقول جہاں بیر کا درخت زیادہ ہوتا ہے وہ شہد کی پیداوار کے لیے بے حد موزوں اور منافع بخش ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دوسرے درختوں کی کٹائی ہورہی ہے وہیں بیر کا درخت بھی ایندھن اور دیگر مقاصد کے لیے کاٹا جارہا ہے جو ان کے بقول شہد کشی کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس رجسٹرڈ بی فارمرز کی تعداد تقریباً 15 ہزار ہے جو کہ اس شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر بیر کے درختوں کی کٹائی کو نہ روکا گیا تو ان کے بقول نہ صرف اعلیٰ ترین شہد کی پیداوار متاثر ہوگی بلکہ اس سے بہت سے خاندان معاشی پریشانیوں کا شکار ہوجائیں گے۔
نعیم قاسمی کا کہنا تھا کہ سر دست ان کے لیے اصل اعدادوشمار بتانا ممکن نہیں تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق اس شعبے سے وابستہ افراد لاکھوں ڈالرز کا زرمبادلہ ہرسال ملک کو دے رہے ہیں۔