سال دو ہزار دس میں پاکستان ہاکی کو نشیب و فرازکا سامنا رہا۔ پہلی ششماہی میں تواس نے زوال کی ایسی داستان رقم کی کہ ہاکی کاشوق رکھنے والوں کے دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو گئے لیکن سال کے آخری مہنیوں میں ہاکی اس وقت دوبارہ زندہ ہوگئی جب بیس سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان ایشین چیمپئن بنا۔
مارچ میں گرین شرٹس نے ہاکی کے عالمی کپ میں شرکت کے لئے بھارت کی سر زمین پر قدم رکھالیکن دیگر عالمی طاقتوں نے اس کے قدموں تلے سے دھیان چند اسٹیڈیم کا احاطہ تنگ کر دیا اور اسے اتنی خفت کا سامنا کرنا پڑاکہ جس کی پاکستان ہاکی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ عالمی کپ کے حصول کیلئے پاکستان سمیت بارہ ٹیمیں جدوجہد کر رہی تھیں ۔
عالمی کپ میں پاکستان سب سے آخری یعنی بارہویں نمبر پررہا جو پنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔ اس سے قبل پاکستان کی سب سے خراب کارکردگی انیس سو چھیاسی کے ورلڈ کپ میں رہی تھی جس میں قومی ٹیم نے بھارت کو شکست دے کر گیارہویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ پاکستان نے عالمی کپ میں چھ میچ کھیلے اور اسے صرف ایک میں کامیابی مل سکی ۔
اس کے بعد اکتوبر میں کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کے لئے گرین شرٹس نے ایک بار پھر بھارت کا رخ کیا تاہم اس مرتبہ بھی نتائج حوصلہ افزا ثابت نہ ہوسکے ۔ پاکستان نے اپنے گروپ کی چار ٹیموں سے معرکہ آرائی کی۔ دو مرتبہ اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ دو بار فتح اس کے حصے میں آئی لیکن بھارت سے شکست کی سزا نے اسے سیمی فائنل سے دور کر دیا کیونکہ بھارت پاکستان کو شکست دے کر پول میں بہتر پوزیشن میں آ گیا تھا اور یوں ایک مرتبہ پھر پانچویں پوزیشن کے ساتھ قومی ٹیم کو وطن واپس لوٹنا پڑا ۔
جیت کو ترستی یہ ٹیم نومبر میں ایشین گیمز میں شرکت کے لئے چین کے شہر گوانگزو پہنچی تاہم اپنے گروپ کے پہلے ہی میچ میں بھارت نے ایک مرتبہ پھر اس کے چاروں شانے چت کر دیئے ۔
اس موقع پر یوں لگتا تھا کہ شاید اس بار بھی مایوسی ہاتھ لگے مگر پہلے میچ کے بعد سے ہی گرین شرٹس نے وہ تہلکہ مچایا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ دوسرے میچ سے فائنل تک پاکستان میچز جیتتا چلا گیا اور بیس سال بعد ایشین چیمپن بن کر نہ صرف قوم کے تمام غم بھلا دیئے بلکہ دو ہزار بارہ میں لندن میں ہونے والے اولمپک گیمز میں شرکت کے لئے اپنی نشست بھی یقینی بنالی ۔