پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہندو برادری ہے۔۔۔ اور یہی وہ برادری ہے جو سب سے زیادہ غربت کا شکار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہندو باقی تمام اقلیتوں کے مقابلے میں بھی سب سے غریب اور بدحال ہیں۔
سنہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا چھ فیصد سے کچھ زیادہ ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ ہندو چاروں صوبوں میں آبادہیں جبکہ ان کی اکثریت صوبہ سندھ میں رہتی ہے۔
پاکستان ہندو کونسل جو ہندوؤں کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہے اور ان کے فلاح و بہبود کے لیے پیش پیش رہتی ہے، اس کے صدر انجینئر ہوت چند کرمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا:
"تھر پارکر، بدین، سکھر، حیدرآباد، جامشورہ، میر پور خاص اور جیکب آباد وغیرہ میں ہندوؤں کی کثیر تعداد رہتی ہے اور یہ سب کی سب غربت کی لکیر سے بھی کہیں نیچے رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود انسانیت کا پہلا تقاضہ ہے۔"
تھرپارکر، اسلام کوٹ، مٹھی اور دیگر علاقوں میں چلے جایئے یہاں زندگی قطار در قطار روتی ملے گی۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق بھی تھر میں بچوں کی اموات غربت اور کم خوراکی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ‘‘
سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ تھر میں بڑے پیمانے پر بچوں کی ہلاکت کی اصل وجہ غذائی قلت ہے۔ تمام حکومتی کوششوں اور بحالی کے کاموں کے باوجود وہاں کم خوراکی اور غذائی قلت آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سال 2016 میں ایک ہزار سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔ ان کی اکثریت ہندو بچوں کی تھی۔ قحط، غربت، کم خوراکی اور غذائی قلت بچوں کو پانچ سال کا بھی نہیں ہونے دیتی اور اس عمر سے پہلے ہی بیمار ڈاکٹر یا تو انہیں انتہائی لاغر کردیتی ہے یا وہ اس دنیا سے روتے سسکتے چلے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما، قومی اسمبلی کے اقلیتی رکن اور پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن چیف ڈاکٹر رمیشن کمار وانکوانی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے بچوں کے مسائل بچپن کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوجاتے بلکہ بلوغت میں پہنچ کر مسائل بھی نئے روپ میں آکھڑے ہوتے ہیں۔ ہندؤ مت میں شادی ایک فریضے کی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہ فریضہ ادا کرنے کے لئے بھی پیسہ چاہئے ہوتا ہے جبکہ برادری کی غربت کا یہ عالم ہے کہ لڑکیوں کی ہی نہیں لڑکوں تک کی پاس شادی کرنے کو پیسے نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہندو کونسل ہر سال ہزاروں شادیوں کا خرچ خود برداشت کرتی ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مہیش نے بتایا ’سندھ میں ہندؤوں کی غربت کی اصل وجہ روزگار کی کمی ہے۔ شہروں میں کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص کو چھوڑ کر زیادہ تر علاقوں میں کام ہے ہی نہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور ہماری برادری میں پڑھائی کی عمر میں کام پر جانا پڑتا ہے۔ والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ پڑھا سکیں اس لئے زیادہ تر افراد خاکروب ہیں۔ کیوں کہ اس کام کو سیکھنے کے لئے نہ پہلے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور نہ تجربہ چاہئے ہوتا ہے. اس لئے ہماری نوجوان نسل پشت در پشت یہ کام کرتی چلی آرہی ہے۔ ‘‘
مہیش کی بات اس حوالے سے بھی سچ کا آئینہ ہے کہ کراچی میں بڑی بڑی جینیوریل سروسز فراہم کرنے والی درجنوں کمپنیاں کھل گئی ہیں اور ان سب میں زیادہ تر افراد ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
پاکستان ہندو کونسل کے صدر ہوت چندکرمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا ’ ہندو برادری کے پاس روزگار کے زیادہ مواقع چھوٹے موٹے ہی ہیں۔ اندرون سندھ یا تو وہ مزدوری کرتے ہیں یا پھر رکشے وغیرہ چلاتے ہیں۔ ان چھوٹے موٹے کاموں سے جو آمدنی ہوتی ہے، اس سے دو وقت کی روٹی تو مل سکتی ہے لیکن زندگی کی باقی خواہشات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔‘‘
اندرون سندھ غربت کے سبب ہندو برادری کے پاس رہنے کو کچے یا نیم پکے مکانات بھی کم ہی ہیں۔ زیادہ تر افراد جھونپڑیوں یا پھر کچی مٹی کے بنے ہوئے خاص انداز کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ مکانات بسا اوقات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ’پاؤں پھیلاؤ تو دیوار سے سر لگتا ہے۔ ‘
غربت کے سبب لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں۔ لاکھوں لوگ صبح سویرے اٹھ کر رفع حاجت کے لئے گھر سے میلوں پیدل سفر کرتے ہیں۔ حکومت سندھ کی ’سینی ٹیشن پالیسی‘ جسے ’صاف ستھرا سندھ‘ کا نام دیا گیا ہے اس کے مطابق سن 2020 تک بھی 70 فیصد دیہات کے صرف 13 ترجیحی اضلاع میں بیت الخلا کی سہولت حاصل ہو گی جبکہ 100فیصد علاقوں اور 100فیصد اضلاع کو یہ سہولت کب نصیب ہوگی اس کا اندازہ لگا کر ہی حیرتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
سندھ کی رہائشی ایڈووکیٹ روپ مالا سنگھ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ’ پاکستان کے قیام کو 70 برس بیت گئے لیکن ہندو برادی پاکستان بننے سے بھی پہلے سے یہاں مقیم ہے اور یہیں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی ہے۔ ہجرت کا موقع ملنے کے باوجود کہیں نہیں گئی یہ وطن سے اس برادری کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمیں پاکستان سے پیار ہے، تھا اور رہے گا۔۔ یہی ہماری دھرتی ماں ہے ۔۔ہم نے اسی سے جنم لیا اور اسی پر آخری سانسیں بھی لیں گے ۔‘‘
پچھلے کچھ سالوں میں غربت سے تنگ آئے کچھ ہندوں خاندانوں نے بھارت ہجرت کی تھی۔ یہ خاندان اب بھی وہیں مقیم ہیں یہ بات دیگر ہے کہ وہاں جا کر بھی خوشحالی ایک حسین خواب ہی رہی بلکہ ان کی حالت پہلے سے بھی خراب ہو گئی۔ انہیں شک کی نگاہوں سے بطور’ ایجنٹ ‘دیکھا جاتا ہے ۔ انہیں نوکریاں نہیں ملتیں، کام کاج کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے وہ نہ ’ادھر‘ کے رہے اور نہ ’ادھر‘ کے۔۔