اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں پاکستان سے ہر سال پانچ ہزار ہندو دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ایک قانون ساز نے متنبہ کیا ہے کہ ملک میں اقلیتیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو مذہبی عدم مساوات سے پیدا ہونے والی صورتحال ابتر ہو سکتی ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے ملک خصوصاً جنوبی صوبہ سندھ میں ہندو برادری کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی وجہ سے ہر سال پانچ ہزار ہندو پاکستان چھوڑ کر دیگر ملکوں کا رخ کرتے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہندو برادری تحفظ چاہتی ہے۔ رمیشن کمار نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں سندھ میں ہندوؤں کی عبادت گاہوں اور ان کی مقدس کتابوں کو نقصان پہنچانے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جس کی وجہ سے اس برادری میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
"دو مہینوں میں چھ واقعات ہوئے جس میں چار ایسے ہیں جس میں باقاعدہ بے حرمتی کی گئی ہماری مذہبی کتاب گیتا کی، آگ لگائی گئی، کبھی جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے واقعات ہو جاتے ہیں تو اس سے ہمارا تشخص بھی بری طرح خراب ہو رہا ہے۔"
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی فرقوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور پرتشدد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
رمیش کمار کا کہنا تھا کہ خاص طور پر قانون سازوں کو چاہیئے کہ وہ مل کر اس بارے میں کوئی لائحہ عمل مرتب کریں تاکہ اقلیتوں کو پاکستان میں ان کے حقوق کی یقین دہانی کو ممکن بنایا جا سکے۔
"ابھی بھی وقت نہیں گیا، آنکھیں کھولیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسا مندر کا مسئلہ ہو تو وہ میں نہیں یہاں سے کوئی مسلمان ایم این اے اس کو اجاگر کرے اور اس کی مذمت کے لیے قرارداد لائی جائے۔"
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں مندروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے بھی انھیں بلایا تھا اور انھوں نے اس بارے میں تفصیلات چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو فراہم کیں۔
رمیش کمار کے بقول چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو ان واقعات میں ہونے والی قانونی کارروائی اور حکومتی اقدامات سے انھیں آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اقلیتوں کے خلاف تشدد کے ان واقعات پر پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی نوٹس لیا اور متعدد مواقع پر وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین ملک میں برداشت کے رویوں کو فروغ دینے پر زور دیتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ ملک میں آباد تمام اقلیتوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدام کیے جا رہے ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے ملک خصوصاً جنوبی صوبہ سندھ میں ہندو برادری کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی وجہ سے ہر سال پانچ ہزار ہندو پاکستان چھوڑ کر دیگر ملکوں کا رخ کرتے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہندو برادری تحفظ چاہتی ہے۔ رمیشن کمار نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں سندھ میں ہندوؤں کی عبادت گاہوں اور ان کی مقدس کتابوں کو نقصان پہنچانے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جس کی وجہ سے اس برادری میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
"دو مہینوں میں چھ واقعات ہوئے جس میں چار ایسے ہیں جس میں باقاعدہ بے حرمتی کی گئی ہماری مذہبی کتاب گیتا کی، آگ لگائی گئی، کبھی جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے واقعات ہو جاتے ہیں تو اس سے ہمارا تشخص بھی بری طرح خراب ہو رہا ہے۔"
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی فرقوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور پرتشدد کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
رمیش کمار کا کہنا تھا کہ خاص طور پر قانون سازوں کو چاہیئے کہ وہ مل کر اس بارے میں کوئی لائحہ عمل مرتب کریں تاکہ اقلیتوں کو پاکستان میں ان کے حقوق کی یقین دہانی کو ممکن بنایا جا سکے۔
"ابھی بھی وقت نہیں گیا، آنکھیں کھولیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسا مندر کا مسئلہ ہو تو وہ میں نہیں یہاں سے کوئی مسلمان ایم این اے اس کو اجاگر کرے اور اس کی مذمت کے لیے قرارداد لائی جائے۔"
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں مندروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے بھی انھیں بلایا تھا اور انھوں نے اس بارے میں تفصیلات چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو فراہم کیں۔
رمیش کمار کے بقول چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو ان واقعات میں ہونے والی قانونی کارروائی اور حکومتی اقدامات سے انھیں آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اقلیتوں کے خلاف تشدد کے ان واقعات پر پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی نوٹس لیا اور متعدد مواقع پر وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین ملک میں برداشت کے رویوں کو فروغ دینے پر زور دیتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ ملک میں آباد تمام اقلیتوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدام کیے جا رہے ہیں۔