ہنگو کے علاقے گل باغ میں دو اساتذہ سرکاری اسکول جا رہے تھے کہ پہلے سے گھات لگائے مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں منگل کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ایک اسکول کے دو اساتذہ کو ہلاک کر دیا۔
قبائلی علاقوں سے ملحقہ ضلع ہنگو میں پولیس حکام نے بتایا کہ سرکاری اسکول کے اساتذہ کو گل باغ کے علاقے میں پہلے سے گھات لگائے مسلح افراد نے خود کار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
فائرنگ کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم پولیس نے علاقے کی ناکہ بندی کر کے ان کی تلاش شروع کر دی۔
ہنگو کے ڈپٹی سپرٹینڈنٹ پولیس سعید خان نے وائس آف امریکہ کو اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ساڑھے سات بجے اسکول لگتا ہے تو یہ اس سے چند منٹ پہلے جا رہے تھے کہ اُن پر فائرنگ کی گئی۔۔۔ تفتیش جاری ہے۔‘‘
اساتذہ کے قتل خلاف اسکول کے طلبا نے احتجاج بھی کیا، جس میں بعد ازاں مقامی لوگ بھی شامل ہو گئے۔
ہنگو فرقہ وارانہ تشدد کے لپیٹ میں بھی رہا ہے، تاہم اس تازہ واقعے کے محرکات کے بارے میں فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
اس سے قبل بھی ضلع ہنگو میں اساتذہ کو مسلح افراد حملوں کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں ایک مضافاتی علاقے میں تین اساتذہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔
فوری طور پر اس واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن شمال مغربی صوبے اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسند ماضی میں سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات و اہلکاروں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اُدھر پشاور میں صوبے کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مقامی رہنما کو نا معلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق سابق کونسلر انوار الحق کو کوہاٹی گیٹ کے علاقے میں اُن کی دوکان پر فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے اس واقع کے خلاف احتجاج بھی کیا اور صوبائی حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کو اس سے قبل بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
قبائلی علاقوں سے ملحقہ ضلع ہنگو میں پولیس حکام نے بتایا کہ سرکاری اسکول کے اساتذہ کو گل باغ کے علاقے میں پہلے سے گھات لگائے مسلح افراد نے خود کار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
فائرنگ کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم پولیس نے علاقے کی ناکہ بندی کر کے ان کی تلاش شروع کر دی۔
ہنگو کے ڈپٹی سپرٹینڈنٹ پولیس سعید خان نے وائس آف امریکہ کو اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ساڑھے سات بجے اسکول لگتا ہے تو یہ اس سے چند منٹ پہلے جا رہے تھے کہ اُن پر فائرنگ کی گئی۔۔۔ تفتیش جاری ہے۔‘‘
اساتذہ کے قتل خلاف اسکول کے طلبا نے احتجاج بھی کیا، جس میں بعد ازاں مقامی لوگ بھی شامل ہو گئے۔
ہنگو فرقہ وارانہ تشدد کے لپیٹ میں بھی رہا ہے، تاہم اس تازہ واقعے کے محرکات کے بارے میں فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
اس سے قبل بھی ضلع ہنگو میں اساتذہ کو مسلح افراد حملوں کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں ایک مضافاتی علاقے میں تین اساتذہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔
فوری طور پر اس واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن شمال مغربی صوبے اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسند ماضی میں سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات و اہلکاروں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اُدھر پشاور میں صوبے کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مقامی رہنما کو نا معلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق سابق کونسلر انوار الحق کو کوہاٹی گیٹ کے علاقے میں اُن کی دوکان پر فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے اس واقع کے خلاف احتجاج بھی کیا اور صوبائی حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کو اس سے قبل بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔