پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم نے صحافی سلمان مسعود کے گھر پر رینجرز کے چھاپے کی شدید مذمت کی ہے۔
امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں نمائندے اور پاکستان کے انگریزی اخبار ’دی نیشن‘ کے اسلام آباد میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر سلمان مسعود نے منگل کی صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر پیغامات میں کہا تھا کہ رینجرز نے ان کے گھر چھاپہ مار کر تلاشی لی مگر ان کے پاس کوئی سرچ وارنٹ موجود نہیں تھا۔
سلمان مسعود کے بقول رینجرز کا کہنا تھا کہ یہ ’معمول‘ کا سرچ آپریشن ہے۔
اطلاعات کے مطابق رینجرز نے صرف سلمان مسعود کے گھر کی ہی نہیں بلکہ علاقے کے دیگر گھروں کی بھی تلاشی لی۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک صحافی کے خلاف اس قسم کی کارروائی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
’’ہم تمام اداروں کو خط لکھنے لگے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت کہ پاکستان کے اندر آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش نہ کی جائے چاہے وہ رینجر ہو، چاہے وہ دہشت گرد تنظیم ہو، چاہے وہ سیاسی جماعت ہو۔ کسی کو بھی کسی حال میں ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد کہا کہ اس قسم کی کارروائیاں اور چھاپے کسی طور پر مناسب اور قابل قبول نہیں۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے پولیس اور متعلقہ سکیورٹی اداروں سے جواب طلب کیا ہے اور سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں کہ یہ چھاپہ کیوں، کیسے اور کس کی اجازت سے مارا گیا۔
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2001ء کے بعد سے اب تک 70 سے زائد صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاک کیا جا چکا ہے۔
ملک میں مخصوص سکیورٹی صورتحال کے باعث شدت پسند تنظیموں کے علاوہ سرکاری اداروں، سیاسی جماعتوں اور دیگر بااثر افراد کی طرف سے بھی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور ایسے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں جس میں صحافت سے وابستہ لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں پیشہ وارانہ انداز میں بلا خوف و خطر ادا کرنے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا جا سکے۔