فوجی عدالتوں کی سزاؤں کو معطل کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے: حکومت

ملک کی مختلف جیلوں میں منگل کو 15 مجرموں کو سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا جس کے بعد گزشتہ دسمبر سے تختہ دار پر لٹکائے گئے مجرموں کی تعداد 80 سے زائد ہو گئی ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے دہشت گردی کے جرم میں چھ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں کو معطل کرنے کا حکم واپس لیا جائے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ان سزاؤں کے خلاف دائر ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں آ جاتا ہے یہ سزائیں معطل رہیں گی۔

منگل کو اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ اکیسویں آئینی ترمیم، جس کے تحت فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں، کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور جب تک اس پر فیصلہ نہیں آ جاتا عدالت عظمیٰ سزاؤں کو معطل کرنے کی ہدایت نہ کرے۔

مزید برآں وفاقی حکومت کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آیا ان سزاؤں کو معطل کرنا اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں۔

حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان سزاؤں کی معطلی کے خلاف درخواست دائر کرنے والی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس معاملے میں براہ راست متاثرہ فریق نہیں اس لیے ان کی درخواست پر سزاؤں کو معطل کرنے کا فیصلہ نہیں دیا جانا چاہیے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سزاؤں کے خلاف مجرموں کو اپیل کا حق حاصل ہے اور فوجی عدالتوں کی سزا پر عملدرآمد معطل کرنے کے حکم سے دہشت گردی کے خلاف کوششیں مثاتر ہو سکتی ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی کہ جب تک فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ نہیں آجاتا یہ سزائیں معطل کی جائیں۔

اس معاملے کی آئندہ سماعت بدھ کو ہونے جا رہی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں ہی فوجی عدالتوں کی طرف سے سات افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں جن میں سے چھ کو موت جب کہ ایک مجرم کو عمر قید کی سزا تفویض کی گئی۔

گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل وضع کیا گیا تھا اور بعد ازاں پارلیمان نے آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی اور ملک کے مختلف حصوں میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ شروع ہی سے متنازع چلا آرہا ہے جس پر وکلاء کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ سماجی و انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کرتی آرہی ہیں۔

تاہم حکومت کا موقف ہے کہ یہ عدالتیں صرف دو سال کے لیے قائم کی گئی ہیں جن میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کو سنا جائےگا۔

دریں اثناء منگل کو ملک کی مختلف جیلوں میں 15 مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا جس کے بعد گزشتہ دسمبر میں پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کیے جانے کے بعد تختہ دار پر لٹکائے گئے مجرموں کی تعداد 80 سے زائد ہو گئی ہے۔

یہ پھانسیاں راولپنڈی، لاہور، گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، ملتان، ساہیوال اور مچھ کی جیلوں میں دی گئیں۔