دوست ممالک سے قرض رول اوور کی یقین دہانی؛ پاکستان کو معیشت کی بہتری کے لیے مزید کیا کرنا ہو گا؟

  • چین، سعودی عرب اور یو اے ای نے 12 ارب ڈالر سے زائد کا قرض ایک سال کے لیے رول اوور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
  • دو طرفہ قرضوں میں رول اوور کا حجم 12 ارب ڈالر ہے: وزیرِ خزانہ
  • دوست ممالک کی جانب رول اوور کی یقین دہانی ایک بڑا ریلیف ہے: تجزیہ کار
  • اس رول اوور میں چین سے حاصل کردہ وہ رقم شامل نہیں ہے جو چین نے توانائی کے مختلف منصوبوں کے لیے پاکستان کی دی تھی۔

کراچی — پاکستان کو قرض دینے والے دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے 12 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے ایک سال کے لیے رول اوور کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے نئے قرض پروگرام کی حتمی منظوری کی راہ ہموار ہو گی۔

آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کو پاکستان کی بین الاقوامی مالیاتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے جو اس سال تقریباً 27 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا ہے کہ دو طرفہ قرضوں میں رول اوور کا حجم 12 ارب ڈالر ہے جو گزشتہ کچھ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔

رول اوور سے کیا مراد ہے؟

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق رول اوور کا مقصد قرض کی تجدید ہوتی ہے۔ یعنی قرض کی ادائیگی کی تاریخ آنے پر اسے نئے قرض میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور قرض لینے والے ملک سے پرانے قرض کی بقایا رقم کی وصولی کے لیے نئے شرائط و ضوابط طے کیے جاتے ہیں۔ جب کہ بعض اوقات شرائط و ضوابط پہلے جیسے ہی رکھے جاتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی معیشت جس کا جی ڈی پی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور اسے بین الاقوامی ادائیگیوں میں بحران کا سامنا ہے وہاں دوست ممالک کی جانب سے 12 ارب ڈالر کے قرضے ایک سال کے لیے رول اوور کرنے کی یقین دہانی ایک بڑا ریلیف ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارتی قرضوں اور سیف ڈیپازٹس کی شکل میں مخصوص مالیاتی انتظام ہے جو ہر سال رول اوور کیا جاتا ہے اور یہ بیرونی مالیاتی ضروریات کے لحاظ سے آئی ایف ایف پروگرام کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے۔

اس رول اوور میں چین سے حاصل کردہ وہ رقم شامل نہیں ہے جو چین نے توانائی کے مختلف منصوبوں کے لیے پاکستان کی دی تھی۔ پاکستانی حکام چین کے حکام سے ان قرضوں کو بھی رول اوور کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے اعلیٰ سطح وفد نے بیجنگ میں چینی حکام سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چین کی قیادت کو ایک خط بھی لکھا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ یعنی عملے کی سطح پر معاہدے کے بعد آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ نیا قرض پروگرام اس کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری اور پاکستان کے ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے ضروری مالیاتی یقین دہانیوں کی بروقت تصدیق حاصل کرنے سے مشروط ہے۔

پاکستان نے چین سے پانچ ارب ڈالر، سعودی عرب سے چار ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے تین ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی تین سے پانچ سال کے لیے رول اوور کرنے کی درخواست کی تھی جسے ان تینوں ملکوں نے ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس رول اوور کے بعد ملک کو مزید تین سے پانچ ارب ڈالر کے فنانسنگ گیپ کا سامنا ہے جو اس قدر بڑا نہیں اور امید ہے کہ رقم کی کمی کا یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو جائے گا۔

SEE ALSO: قرضوں کی ری شیڈولنگ؛ 'اُمید ہے چین پاکستان کی درخواست مان لے گا'

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے عالمی کمرشل بینکوں سے قرضوں کی پیشکش موجود ہے اور پاکستان جلد ہی پانڈا بانڈ کا اجرا بھی کرنے جا رہا ہے۔

بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش میں پاکستان نے پانڈا بانڈز کے اجرا کی حمایت کے لیے چین میں ایک مشیر بھی مقرر کیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ پانچ چینی بینکوں نے پانڈا بانڈ کے اجراء میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ پانڈا بانڈ سے 30 کروڑ ڈالر تک رقم جمع کی جا سکے جس کے لیے چینی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا رہا ہے۔

وزیرِ خزانہ نے یقین دلایا ہے کہ فنانسنگ گیپ کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد کرے گی نہ ہی عالمی کمرشل بینکوں سے بلند شرح سود پر قرض لیا جائے گا۔ بلکہ دیگر وسائل سے ہی اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

کیا رول اوور معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے کافی ہے؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الوقت معیشت میں استحکام نظر آ رہا ہے لیکن وسط اور طویل مدت میں اس استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو سخت فیصلوں پر عمل درآمد کے ساتھ آئی ایم ایف کے دیے گئے نسخوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کو یقینی بنانا ہو گا۔

تجزیہ کار محمد اسماعیل کہتے ہیں کہ پاکستان کو رواں مالی سال بیرونی ادائیگیوں کی مد میں 26 اعشاریہ دو ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں 12 اعشاریہ تین ارب ڈالر رول اوور قرض شامل ہیں۔ اسی طرح حکومت کو توقع ہے کہ چین سے ری فنانسنگ کے ذریعے چار ارب ارب ڈالر کا نیا قرض مل جائے گا جب کہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے بھی چار اعشاریہ چار ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔

حکومت کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے ان فلوز بڑھنے سے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر جون 2025 تک 13 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے اور اس طرح پاکستان اس سال اپنے ذمے واجب الادا رقم اتارنے کی پوزیشن میں ہو گا۔

ایک اور معاشی تجزیہ کار عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ یہ رول اوور معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے مستقبل قریب میں ملک کی معاشی بہتری اور میکرو اکنامک استحکام کے اثرات نمایاں ہیں۔

SEE ALSO: کئی ماہ سے پاکستانی روپیہ مستحکم کیسے ہے؟

لیکن ان کے خیال میں وقتی میکرو اکنامک استحکام کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کے دیے گئے پروگرام پر من و عن عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اپنا بجٹ خسارہ مزید کم کرنا ہو گا۔ برآمدات بڑھانے پر توجہ دینی ہو گی اور بجٹ میں محاصل کے اہداف کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔

خیال رہے کہ اس بار حکومت نے بجٹ میں 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا بڑا ٹارگٹ رکھا ہے جو تقریباً 46 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔ یہ گزشتہ سال جمع کیے گئے محاصل سے 40 فی صد زیادہ ہے۔

بعض تجزیہ کار اس ٹارگٹ کو غیر حقیقی قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں حکومت کو رواں مالی سال میں آگے چل کر منی بجٹ پیش کرنا پڑ سکتا ہے۔

عبد العظیم کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے مالی خساروں پر قابو پانے کے لیے توانائی کے سیکٹر میں اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی کیوں کہ یہ شعبہ اکیلے ہی 2600 ارب روپے کے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ اسی طرح گیس کے شعبے میں دو ہزار 800 ارب روپے کے نقصانات اور سرکاری کاروباری اداروں کے 700 ارب روپے سالانہ کے نقصانات الگ ہیں۔