اقتصادی حالات کے بارے میں پاکستانی عوام کی ناامیدی میں اضافہ

  • ج

اقتصادی حالات کے بارے میں پاکستانی عوام کی ناامیدی میں اضافہ

سروے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں نسبتاََ ابتر صورت حال کی بڑی وجہ اس سال ملک میں سیلا ب سے ہونے والی تباہ کاریاں ہیں۔ اس قدرتی آفت نے خاص طور پر زراعت سے وابستہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو عارضی طور پر ان کے روزگار سے محروم کردیا ہے۔

اقتصادی و سماجی ترقی کے بارے میں رائے عامہ کے جائزہ مرتب کرنے والی غیر سرکاری تنظیم گیلپ پاکستان نے بدھ کے روز جاری کی گئی اپنی نئی سروے رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی عوام میں ملک کے مجموی حالات کے بارے میں نا اُمیدی میں بتدریج اضافہ ہوا ہے ۔

تنظیم کے تازہ ترین سروے کے مطابق 34 فیصد لوگوں کے خیال میں آئندہ سال بھی ملک کے لیے اقتصادی مشکلات کا سال ہوگا جبکہ محض تیر ہ فیصد بہتر معاشی حالات کے بارے میں پراُمید ہیں۔

اعجاز شفیع گیلانی

تنظیم کے سربراہ اعجاز گیلانی کا کہنا ہے کہ یہ جائزہ رپورٹ ملک بھر میں تمام طبقوں کی نمائندگی کرنے والے اڑھائی ہزار افراد سے حاصل کی گئی آراء کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی ممکنہ وجوہات کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے بارے حالات بہت غیر واضح ہیں۔”کہاں جنگ ہو رہی ہے، کس طرح کی جنگ ہو رہی ہے، مستقبل میں کیسی حکومت ہو گی۔ یہ تمام اسباب عدم یقینی کی وجہ بن رہے ہیں جن کے باعث امید کم ہے۔“

قمر زمان کائرہ

تاہم وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گیلپ پاکستان کے سروے کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے منظر عام پر لائے جانے والے ایسے جائز ے اُن کے بقول عوامی رائے کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ اُنھوں نے کہا ”مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جن سے ہم انکار نہیں کر رہے، لیکن مسائل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قوم نظام سے مایوس ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو قوم حالیہ ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے نا جاتی۔“

گیلپ کے سروے میں کہا گیا ہے کہ لڑائی کے باوجود عراق اور افغانستان میں عوام پاکستان کے مقابلے میں بہتر معاشی مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید ہیں ۔

تاہم سروے میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں نسبتاََ ابتر صورت حال کی بڑی وجہ اس سال ملک میں سیلا ب سے ہونے والی تباہ کاریاں ہیں۔ اس قدرتی آفت نے خاص طور پر زراعت سے وابستہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو عارضی طور پر ان کے روزگار سے محروم کردیا ہے۔