طالبان اس وقت ایک حقیقت ہیں، افغانستان میں کوئی پسندیدہ فریق نہیں: پاکستان

شاہ محمود قریشی (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اٖفغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے۔لیکن، ان کے بقول، طالبان اس وقت ایک حقیقت ہیں اور افغاستان کا ہمسایہ مملک ہونے کے ناطے پاکستان کے لیے بعض معاملات میں افغانستان سے متعلق حقیقت پسندی پر مبنی طرز عمل اختیار کرنا ضروری ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ بات جمعے کو پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دواران کہی۔

نیوز کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی سے سوال کیا گیا کہ کیا طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات شرائط پر منبی ہوں گے؟ جس پر پاکستان کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ شرائط کا تعین کرنے سے پہلے آپ کو موجود آپشن پر غور کرنا ہوگا۔

ان کے بقول، بعض کے پاس یہ آپشن تھا کہ اٹھے اور چل دئیے۔ لیکن، ان کے بقول، پاکستان ایسا نہیں کر سکتا۔ ہم ہمسائے ہیں اور ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے۔

بقول شاہ محمود قریشی، ہمارا جغرافیہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرتا ہے اور اس لے، ہمارا رویہ مختلف اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔ لیکن، پاکستان کے وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام نے خود کرنا ہے۔

ان کےبقول، پاکستان ایسی حکومت سے روابط رکھے گا جسے افغانستان کے عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔

یاد رہے کہ پاکستان گزشتہ ماہ طالبان کے طرف سے کابل کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد بین الاقوامی برداری پر زور دیتا آرہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ روابط رکھیں بصورت دیگر افغانستان میں صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔


اگرچہ، پاکستان کے بعض عہدیدار قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی مستقبل کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی برداری کے ساتھ ملک کر کرے گا، لیکن اس کے باوجود پاکستان کے وزیر خارجہ حالیہ دنوں میں متعدد بار بین الاقوامی برادری پر زور دیتے آرہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ روابط رکھیں۔

افغان امور کے ماہر احمد رشید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس لیے تواتر کے ساتھ یہ بات اس لیے کہہ رہا ہے شاید پاکستان اس بات کا خواہش مند ہے کہ وہ جلد سے جلد طالبان اور ان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ لیکن احمد رشید نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔

لیکن احمد رشید کا کہنا ہے کہ شاید پاکستان بار بار طالبان سے روابط رکھنے کی بات اس لیے کر رہا ہے تاکہ کچھ اور ملک بھی طالبان کے ساتھ پاکستان کے موقف سے اتفاق کر لیں۔

احمد رشید کا کہنا ہے پاکستان کو احتیاط کرنی چاہیے؛ یہ دیکھنا ہو گا کہ طالبان کی طرف سے قائم ہونے والی حکومت میں کون کون لوگ شامل ہوں گے اور ان کا طرزعمل کیسا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ دنیا کے اہم ممالک کے لیے شاید طالبان کی طرف سے قائم کردہ حکومت کو تسلیم کرنا فوری طور پر ممکن نا ہو، کیونکہ بین الاقوامی برادری میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق سے متعلق طالبان کے رویوں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اگرچہ طالبان نے اس بات کا عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھیں گے، لیکن احمد رشید کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک طالبان کے عملی اقدمات کو دیکھیں گے۔

ادھر بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ روابط رکھنا اور انہین تسلیم کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان طالبان کے ساتھ روابط رکھنے پر زور دے رہا ہے، تاکہ افغانستان میں صورتحال خراب نا ہو؛ لیکن جہاں تک طالبان کو تسلیم کرنے کے بات ہے بین الاقوامی برداری اور مغربی ممالک اس وقت انہیں تسلیم نہیں کریں گے جب تک طالبان عملی طور پر ثابت نہیں کریں گے کہ ان کا طرز عمل بین الاقوامی اقدار کے مطابق ہے۔

دوسری جانب، پاکستانی وزیر خارجہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کے دوران برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ وہ طالبان کو بطور حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن، برطانیہ ان کےساتھ رابطے میں ہے۔

برطانیہ کے اعلیٰ سفارت کار نے مزید کہا کہ برطانیہ نے افغانستان میں انسانی بہبود کے لیے 28 کروڑ 60 لاکھ پاؤند کی امداد مختص کی ہے۔ لیکن، انہوں نے واضح کیا کہ یہ امداد طالبان کے ذریعے نہیں بلکہ افغانستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے خرچ کی جائے گی۔

مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سال کے اواخر تک پانچ لاکھ افغان شہری اپنا وطن چھوڑ سکتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ان میں زیادہ تر افغان مہاجرین پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں؛ دوسری جانب افغانستان کے پڑوسی ملک تاجکستان نے ایک لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔

ادھر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے کئی ممالک کے سفارت کاروں سے رابطے جاری ہیں۔ قطر میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ برطانیہ اور جرمنی کے سفارت کاروں کے ساتھ طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ عباس استنکزئی سے بات چیت ہوئی ہے۔
سہیل شاہین کے مطابق، برطانیہ کے وزیر اعظم کے خصوصی نمائندے سائمن گاس نے عباس استنکزئی کی قیادت میں طالبان کے وفد سے دوحہ میں جمعرات کو ملاقات کی اور انسانی امداد، سیاسی اور سیکورٹی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر برطانوی سفارت کار نے طالبان کو آگاہ کیا کہ انہون نے افغانستان کے لیے اپنی امداد میں اضافہ کردیا ہے۔

عباس استنکزئی نے افغانستان میں جرمنی کے سفیر مارکس پوٹزل سے بھی ملاقات کی اور سہیل شاہین کے مطابق افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے علاوہ کابل ایئرپورٹ کی دوبارہ بحالی اور دیگر امور زیر بحث آئے۔