جبری گمشدیوں میں سکیورٹی ادارے ملوث ہیں: سینیٹ کمیٹی

(فائل فوٹو)

پاکستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ پارلیمان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی سطحوں پر بھی زیر بحث رہا ہے۔

پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے پیر کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر غور کیا گیا۔

سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ ملک میں جبری گمشدگیوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں جس کی وجہ سے لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے۔

کمیٹی کے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ قانون ساز چاہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو کسی الزام میں اٹھایا گیا ہے تو اُسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

’’ہمارے علم میں ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں اور پھر ان کا سالوں، مہینوں، ہفتوں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ہیں کہاں اور ان کو کسی کورٹ آف لا میں پیش نہیں کیا جاتا۔۔۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو آپ اس کو کورٹ میں لے جائیں اور قانونی عمل کے تحت اُن پر مقدمہ چلائیں۔‘‘

سینیٹر نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بھی کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا تھا تاکہ اُن سے پوچھا جائے کہ اب تک کتنے لوگوں کی بازیابی عمل میں آ سکی ہے۔

تاہم پیر کو سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے شرکت نہیں کی جس پر کمیٹی کے اراکین کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد کے کیسوں کی تعداد 1372 ہے۔

گزشتہ ماہ 30 اگست کو جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا عالمی دن کے موقع پر انسانی حقوق کے ایک غیر جانبدار ادارے ہومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے کہا تھا کہ حکومت جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

ایچ آر سی پی کا بھی کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کے واقعات کی مجموعی تعداد سے متعلق مختلف اعداد و شمار موجود ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی بہت سے واقعات حل طلب ہیں۔

پاکستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ پارلیمان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی سطحوں پر بھی زیر بحث رہا ہے۔

اکثر لاپتا افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی گمشدگی کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کرتے ہیں، تاہم حکومت اور انٹیلی جنس حکام جبری گمشدگیوں میں کسی طرح ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

حکومت میں شامل عہدیدار کہتے رہے ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ اہم ہے اور اس کے حل پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔