جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا عالمی دن، 30 اگست کو منایا جاتا ہے اور اس دن کے موقع پر پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے کہا کہ پاکستان جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
ایک بیان میں ’ایچ آر سی پی‘ نے کہا کہ ”جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن، 30اگست، کی پاکستان کے لیے خاص اہمیت ہے کیونکہ ملک میں لاپتا افراد کا مسئلہ سنگین ہو چکا ہے۔‘‘
ایچ آر سی پی کے وائس چیئرمین کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ معاملہ خاصہ سنگین ہے اور اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اس حوالے سے عالمی میثاق پر دستخط کرے۔
انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ ”یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متعدد واقعات منظر عام پر آنے کے باوجود کسی ایک فرد کو بھی اس سنگین جرم کے لیے سزا نہیں دی جا سکی۔‘‘
واضح رہے کہ حکومت نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر ایک کمیشن بھی بنا رکھا ہے جو اس بارے میں اعداد و شمار جاری کرتا رہتا ہے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کے واقعات کی مجموعی تعداد سے متعلق مختلف اعداد و شمار موجود ہیں ’’لیکن محتاط اندازے بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی ایک بڑی تعداد اب بھی حل طلب ہے۔‘‘
اُدھر انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ فرحان حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حال ہی میں پاکستان میں بلاگرز اور سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں، جو اُن کے بقول تشویشناک امر ہے۔
ایچ آر سی پی کی طرف سے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ جبری یا غیر ارادی گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ (ڈبلیو جی ای آئی ڈی) نے 2012ء میں اپنے پاکستان کے دورے اور بعد ازاں جو سفارشات پیش کی تھیں حکومت نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔
پاکستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ پارلیمان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی سطحوں پر بھی زیر بحث رہا ہے۔ اکثر لاپتا افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی گمشدگی کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کرتے ہیں، تاہم حکومت اور انٹیلی جنس حکام جبری گمشدگیوں میں کسی طرح ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔