پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی فوج کے نئے سربراہ، جنرل منوج موکنڈ نراوانے کے بیان کو ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دے کر مسترد کیا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب ’پری ایمپٹو اسٹرائیکس‘ کی جا سکتی ہیں۔
ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ ’’اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے پرعزم اور ہمہ وقت تیار ہے‘‘۔
ترجمان نے کہا کہ ’’کسی کو یہ بات نہیں بھلانی چاہیے کہ بھارت کی جانب سے بالاکوٹ کی کارروائی کا موزوں جواب دیا گیا تھا‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’بھارتی اشتعال انگیزی کے باوجود، امن، سیکیورٹی اور خطے کے استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے‘‘۔
جنرل منوج موکنڈ نراوانے نے منگل کے روز سابق آرمی چیف جنرل بپن راوت سے عہدے کا چارج لیا۔ اس موقع پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمارا ہمسایہ دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور بھارت کے خلاف پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے‘‘۔
بھارتی فوج کے سربراہ نے مزید کہا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں۔
بدھ کو اسلام آباد میں جاری ہونے والے بیان میں دفتر خانہ کے ترجمان نے کہا ہے بھارتی حکومت کا یہ دعویٰ کہ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں حالات ’’معمول پر آ چکے ہیں‘‘ درست نہیں۔
پاکستان ترجمان نے کہا کہ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کا علاقہ 150 روز سے مکمل طور پر بند پڑا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں کشمیری آبادی مفلوج و محصور ہو کر رہ گئی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی برادری بے گناہ کشمیریوں کی 80 لاکھ سے زائد آبادی کو شدید مشکلات سے نکالنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، جہاں، بیان کے مطابق، نو لاکھ بھارتی سیکیورٹی اہل کار تعینات ہیں؛ جب کہ بھارتی حکوم ’’غلط بیانی سے کام لے رہی ہے کہ حالات معمول پر آ چکے ہیں‘‘۔
بقول ترجمان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے، کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق حاصل ہے، جو انھیں ہر صورت دیا جانا چاہیے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پانچ اگست سے بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں مواصلاتی نظام پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں، جب کہ علاقہ مکمل لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔
ترجمان نے مطالبہ کیا کہ ’’مواصلات پر عائد تمام پابندیاں اٹھائی جائیں، زیر حراست تمام افراد، خاص طور پر نوجوانوں اور سینئر کشمیری قیادت کو فوری طور پر رہا کیا جائے، سفاکانہ قوانین ختم کیے جائیں، مقبوضہ علاقے سے 900000 سیکیورٹی اہل کاروں کو واپس بلایا جائے؛ اور انسانی حقوق کے مبصرین اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو زیر قبضہ علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔