خواجہ آصف علاقائی ملکوں کا دورہ کریں گے، دفترِ خارجہ

ترجمان کا کہنا تھا کہ جب ملکوں کے درمیان تعلقات ہوتے ہیں تو اُن کے درمیان بعض اُمور پر اختلاف رائے بھی ہوتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے متعلق الزام اور اس پر اسلام آباد کے باضابطہ ردعمل کے بعد اب پاکستان نے علاقائی ممالک سے رابطے کو فیصلہ کیا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں تصدیق کی کہ وزیر خواجہ آصف علاقائی ممالک کا دورہ کریں گے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا ان میں کون سے ملک شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق خواجہ آصف چین اور روس جائیں گے۔

نفیس ذکریا نے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ کے ان دوروں کا مقصد مشاورت کرنا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ دورے جلد ہوں گے لیکن وہ ان کی تاریخوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

نفیس ذکریا، ترجمان وزارت خارجہ

خواجہ آصف نے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کی دعوت پر امریکہ بھی جانا تھا لیکن بظاہر یہ دورہ تاخیر کا شکار ہو گیا ہے کیوں کہ نفیس ذکریا کے مطابق امریکہ کے دورے سے متعلق تاریخوں کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔

ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان امریکہ سے راستے جدا کرنے جا رہا ہے تو نفیس ذکریا نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کثیر الجہتی اور دیرینہ تعلقات ہیں اور وہ ان خیالات سے متفق نہیں کہ اسلام آباد نے واشنگٹن کے ساتھ اپنے راستے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ جب ملکوں کے درمیان تعلقات ہوتے ہیں تو اُن کے درمیان بعض اُمور پر اختلاف رائے بھی ہوتا ہے۔

نفیس ذکریا نے کہا کہ ملکوں کے درمیان رابطے کے لیے ہمیشہ چینلز یا راستے ہوتے ہیں، جن کو استعمال میں لاتے ہوئے غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ جمعرات کو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حال ہی میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان کو قصور وار ٹھہرانے سے افغانستان میں استحکام میں مدد نہیں مل سکتی۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس (فائل فوٹو)

رواں ہفتے کے اوائل میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور خطے سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا تھا جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔

امریکی صدر نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ تنظیمیں جو امریکی شہریوں کو قتل کرتی رہی ہیں، پاکستان اُن کو اپنی سر زمین پر پناہ دیتا آیا ہے۔

پاکستانی حکام کہتے رہے ہیں کہ تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی گئی ہے اور پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کے اس عزم کو بھی دہرایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں امن کی کوششوں میں ہر ممکن تعاون کو تیار ہے۔

دریں اثنا پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان صحافیوں کے نو رکنی وفد نے جمعہ کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی، جس میں آرمی چیف نے افغان وفد کو بھی بتایا کہ پاکستان میں تمام دہشت گردوں کے خلاف کسی تفریق کے بغیر کارروائی کی جا رہی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ایک مشترکہ دشمن ہیں اور الزامات کے بجائے تعاون سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔