افغانستان میں امن کی امریکی خواہش پر شک ہے: خواجہ آصف

پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کی امریکی خواہش اور مقصد بظاہر مشکوک دکھائی دیتا ہے۔

نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تقریباً ایک دہائی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں شک پیدا ہوتا ہے کہ آیا افغانستان میں امن امریکہ کا مقصد ہے بھی یا نہیں۔

ان کے بقول اگر ایک لاکھ سے زائد مضبوط ترین فوج افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکی تو یہ کام 12 ہزار سے زائد فوجیوں سے کیسے لیا جا سکتا ہے۔

2001ء میں امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج نے افغانستان آ کر یہاں سے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا اور اس وقت سے ملک میں عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلح مزاحمت اور تخریب کاری جاری ہے۔

دسمبر 2014ء میں اتحادی افواج اپنا لڑاکا مشن مکمل کر کے اپنے اپنے وطن واپس جا چکی ہیں لیکن ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت اب بھی لگ بھگ 13000 بین الاقوامی فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کرنے کے لیے افغانستان میں تعینات ہیں۔ ان میں اکثریت امریکیوں کی ہے۔

حالیہ ہفتوں میں امریکہ کی طرف سے پاکستان پر اپنے ہاں مبینہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے مطالبات میں شدت آئی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کا اصرار ہے کہ عسکریت پسند مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین استعمال کرتے ہوئے سرحد پار افغانستان میں مہلک کارروائیاں کر رہے ہیں۔

تاہم پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے اور وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے امریکہ سے کہا ہے کہ اگر ان دہشت گردوں سے متعلق قابل عمل معلومات ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کرے جس پر پاکستانی فورسز کارروائی کریں گی۔

لیکن ان کے بقول اکتوبر میں ایک مغوی غیر ملکی جوڑے کی بازیابی کے لیے فراہم کردہ معلومات کے علاوہ امریکہ نے اب تک پاکستان کے ساتھ کسی قابل عمل انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ نہیں کیا۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کہتے ہیں کہ بیان بازی کی بجائے دونوں ملکوں کو دانشمندی کے ساتھ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھتے ہوئے چلنا ہو گا۔

پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "پاکستان کو میرا خیال ہے کہ یہاں عقلمندی کے ساتھ چوکس رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے، جو تحفظات ہیں انھیں واضح کر کے بیان کرنا چاہیے اور حکومت پاکستان کر بھی رہی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کو بھی یہ احساس کرنا ہو گا کہ صرف بیانات کے ذریعے الزامات لگانے کی بجائے وہ افغانستان میں اپنی قوت کو بڑھائے اگر وہاں کنٹرول کرنا ہے تو کنٹرول کرے ورنہ کوئی اس کا کوئی اور حل ڈھونڈے۔"

پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی کے لیے افغانستان کی جانب اقدام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تا کہ ان کے بقول سرحد کے آر پار غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کا مقصد حاصل ہو سکے۔