پاکستانی زراعت سیلاب کی نذر ہوگئ

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کئی سرسبز وشاداب فصلیں اس کی پہچان ہیں۔ مثلاً کپاس کو ہی لے لیجئے۔ پاکستان کپاس برآمد کرنے والے چند بڑے ملکوں میں سے ایک ہے لیکن اس بار ان ملکی فصلوں کو نظر لگ گئی ہے۔۔۔ سیلاب کی نظر! یہ بری نظر کا ہی نتیجہ ہے کہ چاول، گنے اور کپاس کے کھیتوں میں پانی آکرکھڑا ہوگیا ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب سے سات لاکھ ہیکٹر رقبے پر کاشت کی گئی فصلیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا مکمل طور پر زیر آب آگئی ہیں۔

خود پاکستان کی وزارت خوراک و زراعت کے ذرائع نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شاید اس بار پیداواری اہداف بھی حاصل نہ ہوسکے۔ وزارت نے رواں سال کیلئے گندم کا پیداواری ہدف 25 ملین ٹن، دھان 6.176 ملین ٹن، مکئی 3.590 ملین ٹن، گنا 53.690 ملین ٹن، کپاس 14.01 ملین گانٹھیں، آلو 2.972 ملین ٹن، پیاز 1.837 ملین ٹن اور سورج مکھی 0.652 ملین ٹن مقرر کیا تھا مگر اب اس ہدف کے پورا ہونے کے امکانات کم ہیں۔

پیدواری اہداف کم ہونے کی صورت میں غذائی اجناس کم اور ان کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ پیداواری اہداف اور قیمتوں میں توازن نہ رہا تو ملک میں غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے اور اس سے بچنے کے لئے باقاعدہ حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔

جنوبی پنجاب اور سندھ کپاس اور دھان کی سرزمین ہے۔ پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ، خان پور، ملتان، میانوالی، راجن پور اور رحیم یار خان کی زرخیز زمین انہی دونوں فصلوں کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن بارشوں کی شدت نے ان زمینوں پر اگی دھان اور کپاس کو تہس نہس کردیا ہے۔

بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے سندھ بھی نہ بچ سکا اور جیکب آباد، کشمور، خیر پور، سکھر، نوشہرو فیروز، لاڑکانہ، دادو، سانگھڑ، ٹھٹھہ، بدین اور حیدر آباد کی زرعی زمینیں پانی کی بہتات کا مقابلہ نہ کرسکیں اور نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں روپے کا خسارہ ہوگیا ہے۔

خریف کی فصلوں کی کاشت کی مدت گزر جانے کے باعث ان فصلوں کی دوبارہ کاشت بھی بعید از امکان ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومتی سطح پر غذائی بحران کی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے۔

ادھر اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے فصلوں کی تباہی کے بعد ملک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کچھ علاقوں میں مکمل طور پر فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور مویشی لاپتہ ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ سیلاب سے تباہی کا شکار زرعی شعبے کی بحالی کے لئے اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ذیلی ادارے کی جانب سے جاری کردہ اندازوں کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں سات لاکھ ہیکٹر رقبے پر کاشت کی گئی فصلیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا زیرِ آب ہیں۔ ایف اے او کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سیلاب کا اثر ملک میں گندم کی آئندہ فصل پر بھی پڑے گا۔

پاکستان میں ایف اے او پروگرامز کے سربراہ ڈیوڈ ڈولان کے مطابق ملک میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے جس کے مقامی آبادی کی ’فوڈ سیکورٹی‘ پر گہرے اور سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سیلاب سے متاثرہ آبادی میں سے پچھہتر فیصد کی زندگی کا دارومدار زراعت پر ہے اور اقوام متحدہ کا ادارہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان متاثرین کے پالتو مویشیوں کو مرنے سے بچایا جا سکے۔