سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد اب بھی عارضی خیمہ بستیوں یا سرکاری عمارتوں میں بنائے گئے کیمپوں میں مقیم ہیں۔
اِن افراد میں جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے محمد شریف بھی شامل ہیں جو اِس مرتبہ اپنے گھر کی بجائے کراچی میں سیلاب زدگان کے لیے قائم ایک کیمپ میں عید منا رہے ہیں۔
محمد شریف کے الفاظ میں ‘ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں کہ عید منائیں۔ آج میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ اپنی بچی کو کپڑے دے سکوں۔’
اِس کیمپ میں جیکب آباد ہی سے تعلق رکھنے والے محمد انور بھی شامل ہیں جِن کا کہنا ہے کہ سیلاب اُن کا سب کچھ بہا کر لے گیا اور اِس خوشی کے موقعے پر اُن کے ہاتھ خالی ہیں۔ اُن کے بقول، بیوی بیمار ہے، اتنے پیسے نہیں کہ اُن کا علاج کرا سکوں۔
سیلاب سے متاثرہ وادیٴ سوات کے گاؤں کوٹ کے رہائشی محمد رحیم کا کہنا ہے کہ پانی کا ریلہ اُن کے تمام باغات اور فصلوں کو بہا کر لے گیا، اور ایسی صورت میں عید منانے کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں بچا۔
محمد رحیم کہتے ہیں کہ کمی تو ہم کافی محسوس کریں گے، کیونکہ پچھلے سال پیسے تھے، حالات ٹھیک تھے۔ اب تو لوگ پیٹ بھرنےکی مجبوری میں پھنسے ہوئے ہیں، کپڑے، جوتے تو دور کی بات ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کوشاں ہے اور بحالی کے إِس عمل کے لیے ایک طویل المدتی پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ملک کا 20فی صد رقبہ سیلاب کی زد میں آیا ہے جب کہ اِس سے دو کروڑ لوگ متاثر اور 1750افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جاچکی ہے۔
اِسی صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومت نے عید سادگی سے منانے کا فیصلہ کیا۔سیلاب زدگان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اِس سے قبل 14اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی بھی سادگی سے منایا گیا تھا۔