آٹھ ماہ بعد بھی سیلاب زدگان کی اکثریت شدید مشکلات سے دوچار

آٹھ ماہ بعد بھی سیلاب زدگان کی اکثریت شدید مشکلات سے دوچار

اوکسفیم کی پراجیکٹ منیجر کا کہنا تھا کہ اُن کی تنظیم کی کوشش ہو گی کہ وہ سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں شریک سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے رابطہ کر کے اُن پر زور ڈالے کہ تعمیر نو سے متعلق حکمت عملی تیار کرتے وقت اُن ضروریات کو پیش نظر رکھا جائے جن کی سروے میں نشاندہی کی گئی ہے۔

بین الاقوامی تنظیم اوکسفیم نے کہا ہے کہ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں سیلاب زدگان کی اکثریت شدید مشکلات سے دوچار ہے۔

اوکسفیم نے مقامی غیرسرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے توسط سے جنوری میں چاروں صوبوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دو ہزار سے زائد افراد سے اُن کی ضروریات اور خواہشات دریافت کیں۔

بدھ کو سروے کی تفصیلات وائس آف امریکہ کو بتاتے ہوئے اوکسفیم کی پاکستان میں پراجیکٹ منیجر فاطمہ نقوی نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت کا مطالبہ تھا کہ نئی زندگی شروع کرنے کے لیے اُنھیں فوری طور پر بہتر روزگار کی ضرورت ہے۔

جائزے میں شامل 70 فیصد افراد نے روزگار کے موقعوں کو اہم ترین قرار دیا، جب کہ دیگر ضروریات میں سستی خوراک کی دستیابی، رہائشی سہولتیں اور صحت عامہ شامل تھے۔

سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سیلاب کے باعث 50 لاکھ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہو گئے۔

فاطمہ نقوی

اوکسفیم کی پراجیکٹ منیجر کا کہنا تھا کہ اُن کی تنظیم کی کوشش ہو گی کہ وہ سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں شریک سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے رابطہ کر کے اُن پر زور ڈالے کہ تعمیر نو سے متعلق حکمت عملی تیار کرتے وقت اُن ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جائے جن کی سروے میں نشاندہی کی گئی ہے۔

فاطمہ نقوی کے مطابق مالی وسائل کی کمی بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دو ارب ڈالر سے زائد کی عالمی اپیل کر رکھی ہے لیکن تاحال اس کا صرف 67 فیصد حصہ موصول ہو سکا ہے۔

اوکسفیم کی عہدیدار نے جلد از جلد تعمیر نو سے متعلق مربوط حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک ایسی حکمت عملی سامنے آئے گی جس میں اہداف واضح طور پر پیش کیے گئے ہوں تو امداد فراہم کرنے والے ملکوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی مزید عطیات دینے کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔

مزید برآں جائزے میں شامل 36 فیصد افراد کے خیال میں امداد کی تقسیم اور تعمیر نو کی کوششوں میں بدعنوانی کا عنصر نمایاں ہے۔

سڑسٹھ فیصد افراد نے بین الاقوامی اداروں کی امدادی کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیا جب کہ اس بارے میں حکومت کی کارکردگی سے مطمئن افراد کی شرح 42 فیصد تھی۔

پاکستان کا تقریباً 20 فیصد رقبہ گذشتہ سال جولائی میں غیر معمولی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کی زد میں آیا تھا اور اس سے لگ بھگ دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے اور نقصانات کا تخمینہ دس ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔