سیلاب زدگان کی بحالی نقصان کے تخمینے کے بعد: یو ایس ایڈ

امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ)کے ایک عہدے دار نے پیر کے روز بتایا کہ سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ مکمل ہونے کے بعد، ‘بحالی کےمؤثر منصوبے’ کو وضع کرنے کی کوششوں میں مدد دی جائے گی جس کا کام جاری ہے، جب کہ حکومتِ امریکہ اب تک پاکستانی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے 15کروڑ ڈالردینے کا اعلان کرچکی ہے۔

عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ‘ ہماری فوری ترجیح جانیں بچانا، غذا ، پانی اور سر چھپانے کی جگہ مہیا کرنا؛ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پتا لگانے اور تدارک کرنے میں حکومتِ پاکستان اور آفت سے نبرد آزما ہونے والے قومی ادارے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ’

اُنھوں نے کہا کہ ‘ جونہی امداد کا ہنگامی مرحلہ مکمل ہوگا،بحالی کے کام کا آغازکر دیا جائے گا۔’

عہدے دار نے بتایا کہ ہم ایسے انفرا اسٹرکچر، پُلوں، سڑکوں، اسپتالوں اور کلینک و اسکولوں کا تخمینہ لگا رہے ہیں جو اِس المیے کے باعث اب دستیاب نہیں یا غیر مؤثر ہو کر رہ گئے ہیں۔

‘ہم ذریعہٴ معاش پرپڑنے والے اثرات کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔ ہم ایک مؤثر بحالی کے منصوبے کو وضع کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ’

‘ہم تعمیرکے کام میں مدد دینے کے لیے نئی ٹیکنالوجی، نئی جہت، اور نئی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ پائیدار زرعی نظام کی بنیاد رکھنے میں مدد دیں گے؛ زیادہ مؤثر اور بہتر ، انفرا اسٹرکچرکے قیام میں مدد دیں گے اور شعبہ بہ شعبہ اِس بات پر دھیان مرکوز رکھیں گے کہ حالات کوکس طرح سے معمول پر لانے میں اعانت کی جاسکتی ہے۔’

دوسری طرف، بحالی کے کام سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے، یونی ورسٹی آف بفیلو اور بفیلو اسٹیٹ کالج کے پروفیسر فیضان الحق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مصیبت زدگان کی مدد کی جائے اور بحالی کے کام میں ذاتی پسندو ناپسند یا سیاسی بنیادوں کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ اُن کے بقول،‘ اِس ضمن میں، پاکستان میں شفافیت کو اپنانےاور اعتمادکے خسارے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں ذاتی عنایات برتنےکی کوئی گنجائش نہ ہو۔’

سیلاب متاثرین کے لیے امریکہ میں کیے جانے والے امدادی کام کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اِس وقت امدادی کام میں تیزی آچکی ہے جس میں رضاکار مخیر حضرات ، نوجوانان، فلاحی اداروں اور مساجد کو اپنے دائرہ کار میں شامل کر چکے ہیں، تو دوسری طرف، عطیات دہندگان میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ ‘وہ اِس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امدادی اشیا کو حقداروں تک پہنچانے کے لیے اِن کی ترسیل ایچ ڈی ایف، امانا اور ایدھی فاؤنڈیشن کے ذریعےسے کی جائے۔’

دوسری طرف، فیضان الحق کا کہنا تھا کہ امدادی اشیا دینے والے صرف پاکستانی نژاد حضرات نہیں ہیں، بلکہ اِس کارِ خیر میں امریکہ کی مختلف کمیونیٹیز اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔

امریکن پاکستان فاؤنڈیشن کے سربراہ، اویس خان نے کہا کہ یہ بہت بڑی نوعیت کا سیلاب ہے، جِس ضمن میں کافی امدادی کام ہو رہا ہے، لیکن ابھی بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔اُنھوں نے کہا کہ فاؤنڈیشن چار پانچ قابلِ اعتماد پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جن میں ریڈ کراس اور ‘سیو دِی چلڈرن’ نامی تنظیمیں شامل ہیں۔

نیو یارک میں پاکستان سیلاب کے معاملے پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل ہونے والے ایشیا سوسائٹی کے اجلاس کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین آفت سے دوچار ہے۔ ایشیا سوسائٹی کے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی تھی۔

اعداد و شمار کی مدد سے اویس خان نے کہا کہ پہلے ہی پاکستان کی 36فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے تھی، جو بمشکل 1.25ڈالر ہے، جب کہ 50فی صد آبادی ناخواندہ ہے، جس میں سے خواتین کی تعداددو تہائی ہے، نوزائدہ اموات 1000میں سے 97پر ہے، جب کہ ساڑھے چار کروڑ افراد کو غذا تک رسائی بمشکل ہوپاتی ہے۔

مون سون کی موصلا دھار بارشوں کے نتیجے میں آنے والے ملک گیر ہلاکت خیز سیلاب نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے ایک بڑے رقبے کو تہہ و بالا کیا،جس میں 1560جانیں ضائع ہوئیں، سوا دو لاکھ گھر تباہ ہوئے، گیارہ لاکھ گاؤں متاثر ہوئے، جِن کی تفاصیل چونکا دینے والی ہیں۔ سیلاب کے ابتدائی دِنوں میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے سرد مہری کے رویے سے کام لینے کے بعد اب واضح طورپرمتحرک دکھائی دیتی ہے اور پاکستانی سیلاب زدگان کی د ل کھول کر مدد کر رہی ہے۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق، سیلاب کے باعث کپاس، چاول اور گنے کی نقد آور فصلوں کے علاوہ سبزیوں اور باغات کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ معاشیات دانوں کے مطابق، زراعت کے شعبے کو بے انتہا نقصان پہنچا ہے۔ جاری مالی سال کے بجٹ میں شرحِ نمو ، جو ساڑھے چار فی صد مقرر کی گئی تھی، اُس میں دو فی صد تک کی کمی،مجموعی قومی پیداوارکے صفر تک گِر جانے، اور افراطِ زر 25فی صد کی حد کو چھونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

سیلاب متاثرین کے بچاؤ اور امدادی کام کے بعد، کچھ ہی وقت کے اندر جو اہم مرحلہ درپیش ہوگا وہ دو کروڑ سے زائد لوگوں کی بحالی کا ہوگا، جس ضمن میں بشمول امریکہ، بین الاقوامی برادری پہلے ہی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔