آلودہ پانی پینے سے بیماریاں پھیلنے اور اموات کی اطلاعات

سیلاب زدہ علاقوں میں آلودہ پانی پینے سے پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں اور متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 36 ہزار سے زائد افراد کے مشتبہ طور پر دست اور اسہال کی بیماری میں مبتلا ہونے کی نشان دہی کی گئی ہے ، جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ صاف پانی تک محدود رسائی، حفظان صحت کی ناقص صورت حال اور عارضی پناہ گاہوں میں لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے متاثرین میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ دست اور اسہال کے علاوہ متاثرین میں ملیریا، ڈنگی بخار، خسرہ، پولیو، ٹیٹنس سمیت جِلدی اور سانس کے امراض پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ حکام پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر ان حالات پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو مزید اموات ہو سکتی ہیں۔

پاکستانی حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ بعض سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین آلودہ پانی پینے کے باعث پیٹ کی بیمایوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے متعلقہ سرکاری ادارے نے امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ”یو ایس ایڈ“ کے اشتراک سے ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ علاقوں میں پانی صاف کرنے کے پلانٹس کی تنصیب کا آغار کر دیا ہے۔

سکھر کے قریب سیلاب زدہ ایک گھرانہ

بین الاقوامی امدادی ادارے آئی سی آر سی کے ایک عہدیدار پاسکل کٹیٹٹ نے جمعے کے روز دارالحکومت اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں آلودہ پانی پینے سے پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں لیکن انھوں نے ان کی تعداد کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔

دریں اثنا پاکستان میں بیماریوں سے پیشگی خبردار کرنے والے نظام (ڈی ای ڈبلیو ایس) کی پورے ملک میں توسیع اور شدید خطرے سے دوچار سیلاب زدہ علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے 15 طبی مراکز قائم کرنے کے لیے امریکہ عالمی ادارہ صحت کو 30 لاکھ ڈالر فراہم کررہا ہے۔

اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر این پیٹرسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لوگوں کی اشد ضروری علاج معالجے تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ شدید خطرے سے دوچار علاقوں میں پہلے 15 طبی مراکز قائم کر رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان مراکز میں تربیت یافیہ بین الاقوامی اور مقامی طبی عملہ متاثرین میں بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج کرے گا

ابتدائی اندازوں کے مطابق صوبہ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختون خواہ میں 52 طبی مراکز تباہ ہو گئے ہیں جب کہ 89 مزید مراکز کو جزوی نقصان پہنچا ہے جس کے باعث متاثرین کو طبی سہولیات کی دستیابی میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کے لیے جان بچانے والی ادویات کی ضرورت ہے اور جن علاقوں تک رسائی ممکن ہے وہاں ان ضروریات کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ متعدد سیلاب زدہ اضلاع میں سڑکیں اور پل بہہ جانے کی وجہ سے ان کا ملک کے دوسرے حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہے اور امدادی اشیاء کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹروں ، کشتیوں اور بعض پہاڑی علاقوں میں خچروں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے تینوں صوبوں کے مرکزی شہروں ملتان، سکھر اور پشاور میں امدادی اشیاء کے ذخائر میں اضافہ کرنے پر زور دیا ہے۔ عالمی تنظیم کے حکام کے مطابق ملک میں دستیاب خیموں، کمبل، پلاسٹک شیٹیں اور عارضی پناہ گاہوں میں استعمال ہونے والی اشیاء اس سانحہ سے پیدا ہونے والی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں جس کی باعث ان کی درآمد پر غور کیا جا رہا ہے۔

سیلاب سے تقریباً سات لاکھ 24 ہزارمکانات یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں یا ان کو جزوی نقصان پہنچا ہے جس سے لگ بھگ 50 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سیلاب زدگان کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ گئی ہے اور ملکی تاریخ کے اس بدترین سیلاب سے 1,343 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1,600 کے قریب ہے۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ خیبر پختون خواہ میں ہوئی ہیں جب کہ متاثرین میں اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے لیکن جیسے جیسے سیلابی ریلا سندھ کے علاقوں سے گزر رہا ہے لاکھوں مزید افراد کے متاثر ہو نے کے امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ممکنہ نقصانات کی آگاہی کے سبب نشیبی علاقوں سے لوگوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے جو بڑے قصبوں کا رخ کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر جمیل سومرو نے وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ صرف سکھر شہر میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی آمد ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کو صوبہ کے بڑے شہروں بشمول سکھر، حیدر آباد اور کراچی میں خیمہ بستیاں قائم کرکے عارضی رہائش فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق دیہات سے آنے والوں کے ساتھ ان کے مال مویشی بھی ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ اپنے علاقوں کے قریب ہی پناہ لینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

سیلاب سے ایک وسیع رقبے پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ ہزاروں مویشی بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔ متاثر ہونے والے دیہاتوں کی تعداد دس ہزار سات سو سے زائد ہے۔

عالمی بینک کے سربراہ رابرٹ زوئیلِک نے سابق سوویت ریاست لاٹویا میں جمعہ کے روزایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ محتاط اندازوں کے مطابق سیلاب سے تباہ ہونے والی فصلوں کی مالیت تقریباً ایک ارب ڈالر ہے اور سب کو مل کر پاکستان کی مدد کرنا ہو گی۔