گیسٹرواور ملیریا کے بعد سیلاب متاثرین پرکانگو وائرس کا حملہ

گیسٹرواور ملیریا کے بعد سیلاب متاثرین پرکانگو وائرس کا حملہ

کچی پکی منڈیروں سے اترتی دھوپ کی طرح سیلابی پانی بھی بہت سے علاقوں سے آخرکار اترنے لگا ہے ۔ اس سیلابی پانی نے پاکستان کی تاریخ کو ایک نیا ۔۔۔مگر دردناک موڑ دیا ہے۔پچھلے تقریباً دو ماہ کی دردناکیاں جہاں برسوں تک تلخ حقیقت بن کر سامنے آتی رہے گی وہیں یہ سیلاب اپنے پیچھے خوفناک مسائل بھی چھوڑ کر جارہا ہے ۔ایک خوفناک اور تباہ کن سیلاب کے دامن میں بھوک، غریبی، بے روزگاری اور بیماریوں کے علاوہ اور ہوبھی کیا سکتا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ افراد میں گیسٹرو ، ملیریااور اب کانگو وائرس کی تشخیص نے صحت کے شعبے سے وابستہ ماہرین کو فکرمند کردیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر بضد ہیں کہ یہ وائرس کراچی میں کیوں کر پھیل رہاہے ، اس سے بچنے کے امکانات کیا ہوں گے اور علاج معالجے کا کیا ہوگا؟
گو کہ پاکستان میں کانگو وائرس کی موجودگی نئی نہیں ہے بلکہ 1976ء میں بلوچستان کے ضلع کوہلو میں کانگووائرس سے متاثرہ پہلا مریض سامنے آیا تھا مگر کراچی اب تک اس سے محفوظ تھا تاہم گزشتہ جمعرات کو یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔ اب ماہرین اور ڈاکٹر سر جوڑ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کراچی کیسے پہنچا؟
انفیکشن کنٹرول کمیٹی کی چیئرپرسن اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن، پیتھولوجی اینڈ مائیکروبائیولوجی ڈاکٹر بشریٰ جمیل کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دو مفروضوں پر غور کیاجارہا ہے۔ اول یہ کہ غالباً یہ مرض ان جانوروں کے ذریعے کراچی پہنچا ہے جوملک کے بالائی علاقوں خاص کر کشمیر، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے یہاں پہنچے ہیں۔یہ جانور پہلے سے کانگووائرس سے متاثرہیں۔ دوم ہوسکتا ہے کہ یہ مرض ہیلتھ ورکرز کے ذریعے یہاں آیا ہوں۔ ہیلتھ ورکز کانگووائرس سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں اور یہ مریض سیلاب کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کررہے ہیں لہذا اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کانگووائرس بھی انہی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہورہا ہے۔
کانگو وائرس پالتو جانوروں کی جلدمیں پناہ لیتا ہے اور جانور کا خون چوس چوس کر ہی خود کو زندہ رکھتا ہے ۔ایسے جانورمثلاً بھیڑ بکری، گائے، بھینسیں وغیرہ جب انسانی رابطوں میں آتے ہیں تو یہ وائرس جانور وں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے اور انسانی جسم کو اپناشکار بنالیتا ہے۔ اس کا مریض تیز بخار، شدید سر اور جسم کے در دمیں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس وائرس کی شدت میں اضافے سے متاثرہ مریض کے جسم میں خون جمانے والے اجزا یعنی پلیٹ لیٹس کی بھی شدید کمی ہوجاتی ہے جس سے مریض کے جسم سے خون جاری ہونے لگتا ہے۔ یہ علامات خطرناک ہوتی ہیں ۔کانگو وائرس سے متاثرہ مریض کے جسم پراکثر اوقات نیل بھی پڑجاتے ہیں۔
اصل فکرمندی کی بات یہ ہے کہ پورے ملک سے سب سے زیادہ لوگ ملازمت اور روزگار کی غرض سے کراچی آتے جاتے رہتے ہیں اور اگر یہ مرض یہاں پھیلا تو پورے ملک میں اس مرض کے پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا۔
ڈاکٹر بشریٰ جمیل کے مطابق بے شک کراچی کے مقامی افراد میں بھی یہ مرض ہوسکتا ہے لیکن یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ مرض ہر کسی کواس وقت تک نہیں لگ سکتاجب تک کسی متاثرہ انسان یا جانوروں سے رابطہ قائم نہ ہو۔
احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ڈاکٹر بشریٰ کہتی ہیں " ملک میں اور خاص طور سے کراچی کے مذبح خانوں کو خودکار بنانا ہوگا اس سے نہ صرف صاف ستھرا ماحول جنم لے گا بلکہ مذبح خانوں میں کام کرنے والے افراد خاص کر قصابوں کو بھی اس مرض سے بچایا جاسکے گا"
سندھ اسپتال کے ایڈیشنل میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر شکیل عامر ملک ایک اور امکان پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں " بیمار مریضوں کی کھالوں کو چھونے یا انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے سے بھی یہ مرض انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے"
کراچی ائیرپورٹ ملک کے مصروف ترین ائیرپورٹس میں سے ایک ہے ۔ سال میں لاکھوں اور کروڑوں مسافر وں کی آمدورفت یہیں سے ممکن ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کانگو وائرس کی روک تھام کے لئے کوئی انتظامات نہیں۔ یہاں تک کہ کوئی ایک بھی ا سکینر مشین بھی نہیں جو کانگووائرس سے متاثرہ مریضوں کا پتہ چلا سکے۔ لہٰذا حکام کو اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی ۔ اس اقدام سے کانگو وائرس میں مبتلا مریضوں کو ائرپورٹس پر ہی روکا جاسکے گا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کانگو وائرس کی شدت جولائی سے نومبر تک اور خاص طور سے عیدالاضحی کے موقع پربہت زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ عیدالاضحی پر ملک کے تمام صوبوں سے جانوروں کی نقل و حرکت غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے ۔ ان جانوروں کی دیکھ بھال پر مامور افراد بھی اس وائرس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کی علامات تین دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جبکہ تصدیق کے بعد متاثرہ مریض کے زیر استعمال تمام اشیاء کو تلف کردینا چاہئے۔