سیلاب کے بعد بحالی کے لیے نئی امداد دی جائے

حنا ربانی کھر

پاکستان نے بین الاقوامی امدادی اداروں پر واضح کیا ہے کہ وہ اپنے سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے ایسی امداد قبول نہیں کرے گا جو ان اداروں کی طرف سے ملک میں پہلے سے جاری پروگراموں کی مد سے منتقل کر کے فراہم کی جائے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ حنا ربّانی کھر نے کہا کہ پاکستان صرف وہ امداد لینے میں دلچسپی رکھتا ہے جو تازہ اور اضافی ہو تاکہ حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق فی متاثرہ خاندان بیس ہزار روپے اور گھروں کی تعمیر نو کے لیے فی خاندان80 ہزار روپے دینے کے علاوہ تعمیر نو کے دیگر پروگراموں کو آگے بڑھا سکے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان بیرونی امداد لینے سے انکار نہیں کر رہی لیکن اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ سیلاب زدگان کے لیے یہ امداد اپنی شرائط اور ضروریات کو مد نظر رکھ کر قبول کرے۔

”اگر 25 ملک ہمارے یہاں آ کر کام کرتے ہیں تو ان کے کئی لوگ بھی ساتھ آئیں گے ، منصوبوں کے لیے مشیروں کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور اس سب پر بھاری اخراجات اٹھیں گے۔“

حنا ربّانی کھر نے کہا کہ اگر بین الاقوامی ادارے پاکستان کو اس کی شرائط کے مطابق رقم نہیں دیتے تو ملک اپنے طور پر وفاقی اور صوبائی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیلاب میں تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کا کام کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کے پاکستان میں اس بدترین قدرتی آفت سے9.7 ارب ڈالر کا مجموعی نقصان ہوا ہے جس میں سے ان کے مطابق اگر نقصان کی رقم کو فی الحال الگ رکھا جائے تو تعمیر نو کے لیے چھ ارب ڈالر یا اس سے زیادہ درکار ہوں گے جو وزیر مملکت کے مطابق ملک اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام یعنی پی ایس ڈی پی میں رد وبدل اور آئندہ بجٹ میں ترجیحات کو ازسرے نو ترتیب دے کر حاصل کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہاکہ ملک عالمی اداروں سے امداد کیش کی صورت براہ راست حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ یہ اپنے نظام کے تحت موثر طورپر استعمال کر سکے۔

وزیر مملکت نے یقین دلایا کہ پاکستان بیرونی امداد کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے خود اپنے باز پرس کے نظام سمیت ہر وہ طریقہ اپنانے کے لیے تیار ہے جو عالمی اداروں کی ضرورت ہو اور انہیں مطمئین کر سکے۔

متاثرین میں امداد کی فراہمی کا عمل شروع ہوچکا ہے

حنا ربّانی نے اس تنقید کو مسترد کیا کہ سیلاب زد گان کے لیے عالمی امداد کا بڑا حصہ حکومت کے بجائے اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے فراہم کیا جانا حکومت پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جس ملک میں بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے اسے ہنگامی امداد یا ریلیف وہاں کی حکومت نہیں بلکہ اقوام متحدہ ہی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔

پاکستانی وزیر کی طرف سے دیگر منصوبوں سے منتقل کی گئی امداد قبول نا کرنے کے بارے میں بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح پراسٹریٹیجک مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے جس میں امریکی حکام کے مطابق اسلام آباد کو سیلاب سے نمٹنے میں مدد دینے پر خاص غور ہوگا۔

اس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو مدد دینے والے ملکوں میں امریکہ سر فہرست ہے۔